احسن تقویم سے اسفل السافلین تک کا سفر
تحریر : راشد عباسی

احسن تقویم سے اسفل السافلین تک کا سفر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں سادگی کوہسار کے دیہاتوں کی پہچان تھی۔ کچے مکان، کھیتی باڑی، مال مویشی اور پہاڑی زبان اکثر دیہات میں قدر مشترک تھی۔ کسی کا کھیت کسی وجہ سے اگر کاشت نہ ہو سکے تو وہ خجالت محسوس کرتا تھا۔ غلہ گھر کا ہوتا تھا جسے جندر سے پسوا کر پورا سال استعمال کیا جاتا تھا۔ جندر پر بھی اجرت کے طور پر غلے کا ہی طے شدہ حصہ لیا جاتا تھا۔ یوں زندگی زمین اور ماحول کے ساتھ انسلاک کا شہکار تھی۔
ہائی سکول بہت کم تھے۔ جو تھے وہ بھی سرکاری تھے۔ ابھی پرائیویٹ سکولوں کی بھرمار نہیں ہوئی تھی۔ بجلی جیسی نعمت ابھی بہت کم گاؤں کو میسر تھی۔ سڑک تک رسائی کے لیے کئی کئی گھنٹے پیدل سفر ناگزیر تھا۔
اکثر والدین تعلیم یافتہ نہ تھے۔ گاؤں کے امام مسجد لوگوں کی دینی اور اخلاقی تربیت کے ذمہ دار تھے۔ مسالک کا کوئی جگھڑا ابھی پیدا نہیں ہوا تھا۔ لوگ مسالک کی جنگ لڑنے کے بجائے دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے تھے۔ عزت کا معیار کردار، شرافت اور رزق حلال تھا۔ برے لوگوں سے لوگ دعا سلام تک سے گریز کرتے۔ رزق حرام میں ملوث لوگوں سے تو حقہ پانی تک بند کر دیا جاتا تھا۔
والدین بچوں کی تربیت کو فریضہ سمجھ کر سرانجام دیتے تھے۔ میرے والدین کو اللہ پاک جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے، پوری زندگی محنت مشقت میں گزاری۔ عہد مفلسی میں کیا کیا مصائب برداشت کیے۔ فاقوں تک نوبت آئی۔ لیکن بہادری سے حالات کا مقابلہ کیا۔ ہمیں محنت، دیانت داری، راست بازی اور حوصلہ مندی کی تعلیم دی۔ خود اعتمادی اور محنت و ریاضت سے حالات سے مقابلہ کرنے کا سبق پڑھایا۔ توکل اور حلال خوری کا دامن کبھی نہ چھوڑنے کی ہدایت کی۔ ظلم ، زیادتی، نا انصافی اور استحصال سے باز رہنے کی نصیحت کی۔ مجھے یاد ہے کہ جنت مقیم والدہ محترمہ کسی کی زمین سے دانتوں میں خلال کرنے کے لیے گھاس کا تنکا بھی توڑنے سے منع فرماتی تھیں۔
ہمارے اساتذہ ہمیں کتابیں کم پڑھاتے اور اخلاقی تربیت زیادہ کرتے۔ ان کو یقین تھا کہ ان کے طلبا کل بڑے آدمی بن کر ملک و قوم کا نام روشن کریں گے۔ اس وقت تعلیم کا مقصد فقط نوکری کا حصول نہ تھا۔ اس لیے تعلیم یافتہ آدمی باعزت اور باکردار ہوتا تھا۔ اساتذہ کو اپنے مقام و مرتبے کا احساس و ادراک تھا اس لیے وہ اپنے شاگردوں سے اپنی اولاد کی طرح محبت کرتے تھے۔ طلبا بھی اساتذہ کا دل سے احترام کرتے تھے۔
اس وقت کوہسار کے لوگ زمین اور لوک رہتل سے جڑے تھے۔ "لیتری” کے ذریعے مکان بنانے سے لے کر گھاس کاٹنے تک کے سارے کام ہوتے ہیں۔ یعنی نفسا نفسی کے بجائے سارے گاؤں کے مکینوں کے کام امداد باہمی اور سعی متحدہ و مشترکہ سے انجام دیے جاتے تھے۔ شادی بیاہ پر پورا محلہ کاموں میں جت جاتا تھا۔ چارپائیاں، بسترے، کرسیاں، برتن ہر چیز سارے محلے سے اکٹھی کی جاتی تھی۔ مہمانوں کی دیکھ بھال کے لیے پورا محلہ میزبانی کے فرائض سر انجام دیتا تھا۔ اسی طرح فوتگی پر بھی پورا گاؤں متحد ہو جاتا۔ کئی کئی ہفتے گھروں سے چائے ، سالن فوتگی والے گھر لایا جاتا اور وہیں پر مل کر اہل محلہ کھانا کھاتے۔ جمعرات کو مرحومین کے لیے دعائے مغفرت فرض سمجھ کر کی جاتی تھی۔
پھر اسی کی دھائی میں ماں بولیوں کے حوالے سے باقاعدہ سازش کے تحت احساس کمتری پھیلایا گیا۔ پرائیویٹ سکول کھلنا شروع ہوئے۔ مسلک اور فرقے دین سے زیادہ اہم ہو گئے۔ نفرت، تعصب اور عداوت کو ہوا دی گئی۔ لوگوں کا اپنی مٹی سے انسلاک کمزور ہونا شروع ہوا۔ شہروں کی طرف نقل مکانی کا چلن عام ہوا۔ زمینیں بنجر ہونا شروع ہو گئیں۔ مال مویشیوں سے ماڈرن خواتین کو بدبو آنا شروع ہو گئی۔ جندر ختم ہو گئے۔ چکی اور ملوں کا آٹا عام ہو گیا۔ پیکٹوں میں دودھ کے نام پر سفید زہر بکنے لگا۔
شہروں کی دیکھا دیکھی ہمارے لوگ بھی مادیت پرستی میں لتھڑ گئے۔ تعلیم کا مقصد فقط اچھی نوکری کا حصول ٹھہرا اور تربیت کا عنصر عنقا ہو گیا۔ نتیجتا تعلیم کھیپ در کھیپ نوکر پیدا کرنے پر مامور ہو گئی۔ اساتذہ بھی علم، تہذیب اور اخلاق کے معلم نہ رہے۔ تدریس ایک پیشہ بن گیا۔ یہ ناگزیر نہ رہا کہ تعلیم یافتہ شخص اعلی اخلاق اور بڑے کردار کا مالک ہو۔ حلال حرام کی تمیز ختم ہو گئی۔ مسند تکریم سے اہل علم و فضل کو اٹھا کر ان کی جگہ اہل جاہ حشم کو بٹھا دیا گیا۔ اور یوں پستی کا ایسا سفر شروع ہوا جو ختم ہونے کا نام ہیں نہیں لے رہا۔
آئیے۔۔۔ ہم نئی نسل کو اپنی روایات و اقدار سے روشناس کروانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ماں بولی کے حوالے سے احساس کمتری سے نکلیں۔ اپنی زمینیں آباد کریں تاکہ ہمارے دل اور دماغ آباد ہوں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ نئی نسلوں کی تربیت پر بھی بھرپور توجہ دیں۔ "امریکن سسٹم” کے بجائے "لیتری” کو عام کریں۔ اہل علم و فضل اور صاحبان اخلاق و کردار کو دوبارہ ان کی مسند تکریم پر براجمان کریں۔ ساری زبانیں سیکھیں لیکن کسی کی غلامی قبول نہ کریں۔ قرآن فہمی کو عام کریں اور قرآن کے احکام عمل کی نیت سے سیکھیں۔
زمانہ اب بھي نہيں جس کے سوز سے فارغ
ميں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود ميں ہے
اقبال