آج اردو پنجابی کے صاحب طرز شاعر جناب انورؔ مسعود کا یوم پیدائش ہے

انور مسعود اردو اور فارسی کے بھی باکمال شاعر ہیں

ایک شاعر اور ادیب کے علاوہ ایک استاد اور دانش ور کے طور پر بھی انور مسعود کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اگرچہ ان کی مزاحیہ شاعری ان کی پہچان بنی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی سنجیدہ شاعری کا معیار بھی عام شعراء کی شاعری کے مقابلے میں بہت بلند ہے۔

انور مسعود انیس سو پینتیس میں گجرات میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ایم اے فارسی کی ڈگری گولڈ میڈل کے ساتھ حاصل کی۔ وہ پنجاب کے مختلف سکولوں، کالجوں میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے ۔

ان کی مزاحیہ شاعری زبان زد عام ہے۔ ان کی پنجابی کی نظمیں "بنین”، "اج کی پکائیے”، "چاء تے لسی” وغیرہ اکثر لوگوں کو زبانی یاد ہیں۔ پنجابی اور اردو کی ان کی کئی کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں اور اکثر کو ایوارڈ بھی ملے۔

اگر آپ نے انور مسعود کی پنجابی نظم "امبڑی” نہیں پڑھی یا سنی تو زیادہ دیر اس سے محروم نہ رہیں۔ مامتا کے حوالے سے آپ نے شاید بہت شاعری پڑھی ہو گی لیکن یہ نظم اپنے تاثر کی شدت میں اپنا الگ مقام رکھتی ہے۔ بیٹا ماں پر تشدد کر کے بغیر ناشتہ کیے سکول چلا جاتا ہے۔ پھر بھی مضروب ماں اس کا ناشتہ باندھ کر اس کے ایک ہم جماعت کے گھر چلی جاتی ہے کہ میرے بیٹے کا ناشتہ سکول ساتھ لے جاؤ۔ وہ سکول آکر منشی جی (انور مسعود) کو بتاتا ہے۔۔۔۔۔۔

ﻣﻨﮧ ﺍُﺗﮯ ﻧﯿﻞ ﺳﻦ
ﺗﮯ ﺳُﺠّﺎ ﮨﻮﯾﺎ ﮨﺘﮫ ﺳﯽ
ﺍﮐﮭﺎﮞ ﻭﭺ ﺍﺗﮭﺮﻭ
ﺗﮯ ﺑُﻼّﮞ ﻭﭺ ﺭﺕ سی

لیکن ماں کی مامتا دیکھیں کہ اس حال میں بھی وہ اپنے بیٹے کی بھوک کے بارے میں فکرمند ہے۔ اور اس کے دوست سے درخواست کرتی ہے۔۔۔۔

ﺑﮭﮑﺎ ﺑﮭﺎﻧﺎﮞ ﺍﺝ ﺍﻭ ﺳﮑﻮﻟﮯ ﭨُﺮ ﮔﯿﺎ ﺍے
ﭼﮭﯿﺘﯽ ﻧﺎﻝ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺑﯿﺒﺎ
ﺩﯾﺮﯾﺎﮞ ﻧﮧ ﻻﺋﯿﮟ ﺑﯿﺒﺎ
ﺍﻭﮨﺪﯾﺎﮞ ﺗﮯ ﻟﻮﺳﺪﯾﺎﮞ ﮨﻮﻥ ﮔﯿﺎﮞ ﺁﻧﺪﺭﺍں

پنجابی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی ان کی شاعری معیار اور انفرادیت میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ یہ قطعہ ملاحظہ کیجیے۔۔۔
ﺭﮨﺎﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ ﻭﻃﻦ ﻣﯿﮟ
ﻣﮕﺮ ﺍﮎ ﺧﺴﺘﮧ ﺣﺎﻟﯽ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ
ﺗﺮﺳﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﻮ
ﻓﻘﻂ ﺭﻭﺷﻦ ﺧﯿﺎﻟﯽ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ

رسمی آزادی حاصل کرنے کے باوجود ہم ذہنی غلامی سے نجات نہ حاصل کر سکے۔ طبقاتی معاشرے میں جاگیردارانہ رویے عام آدمی کو کیڑے مکوڑے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے جب کہ اہل جاہ و حشم تو ظل الٰہی ہیں۔۔۔۔۔

ﻣﺮﯾﺾ ﮐﺘﻨﮯ ﺗﮍﭘﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﻤﺒﻮﻟﯿﻨﺴﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ہے ﺍﻥ ﮐﺎ ﺣﺎﻝ کچھ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﮧ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﮕﺮ ﭘُﻠﺲ ﻧﮯ ﭨﺮﯾﻔﮏ ﮐﻮ ﺭﻭﮎ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ
ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ ’’ ﻗﻮﻡ ﮐﮯ ﺧﺎﺩﻡ ‘‘ ﮔﺰﺭﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ

اللہ پاک انور مسعود کا سایہ تادیر ہمارے ادب کے سر پر قائم رکھے۔ آمین

ایک تبصرہ چھوڑ دو