پہاڑی نظم "اُجڑے پُجڑے کَچّے ٹَہھارے”
شاعر : راشد عباسی


دروازہ ٹوٹا ہوا
کھڑکی کو دیمک چاٹ گئی ہے
دیواروں کی لیپائی ساری اتر گئی ہے
چکنی مٹی کا فرش بھی جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا ہے
کون دیواروں کو سفیدی کرے گا
کسے پروا کہ وہ دیواروں کی تزئین و آرائش کرے
سب لوگوں کی مرکز نگاہ تو کوٹھیاں ہیں
کچی جھگیوں کو کون دیکھے گا
ہماری کسی کو ضرورت ہی نہیں ہے
اب مرمت کا کام کون کرے
جس طرح کچی جھگیاں ہوتی ہیں
ہم بے چاروں کی حالت بھی ویسی ہی ہے
ہم درد کے مارے !