سانس کی نالیوں میں تنگی دنیا میں موت کی تیسری بڑی وجہ بن گئی

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ سندھ اور پنجاب کے بڑے شہروں میں ایئر کوالٹی انڈیکس بڑھ جانے کے بعد سانس کی نالیوں میں تنگی (سی او پی ڈی) کی بیماری بڑھنے کا خطرہ ہے، سی او پی ڈی دنیا میں اموات کی تیسری بڑی وجہ بنتی جا رہی ہے جس میں سانس لینے میں دشواری سمیت عمل تنفس کے دیگر مسائل شامل ہیں۔ لاہور اور کراچی دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں آنے کے بعد حکام کو لاہور میں کورونا کی طرح لاک ڈاؤن لگانا پڑ رہا ہے۔
یہ باتیں انہوں نے ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کالج کے پروفیشنل ڈیویلپمنٹ سینٹر ہال 2 میں ورلڈ سی او پی ڈی ڈے کے سلسلے میں منعقدہ آگہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ سیمینار کے مہمان خصوصی اوجھا انسٹیٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیز کے ڈائریکٹر اور ڈاؤ یونیورسٹی کے شعبہ میڈیسن کے ڈین پروفیسر افتخار احمد تھے جبکہ دیگر مقررین میں لیفٹیننٹ کرنل ڈاکٹر محمود ملک، لیفٹیننٹ کرنل ڈاکٹر شمائلہ اور پروفیسر فیصل فیاض زبیری شامل تھے۔
اسموگ اور آب و ہوا میں موجود دھواں انسانی جانوں کیلئےخطرہ

پروفیسر افتخار احمد نے کہا کہ پنجاب سمیت سندھ میں اسموگ اور آب و ہوا میں موجود دھوئیں نے انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالا ہوا ہے۔ آج بھی ہم ایئر کوالٹی انڈیکس کے لحاظ سے آلودہ ترین شہروں میں آتے ہیں۔ اس کی اہم وجہ گاڑیوں کا دھواں، کوڑا کرکٹ جلانا اور صنعتی آلودگی ہے۔ ہمیں بطور ڈاکٹر اور ماہرینِ صحت اپنے معاشرے کو یہ سکھانا اور سمجھانا چاہیے کہ ان چیزوں سے اجتناب کریں۔ آج ماحولیاتی آلودگی کے باعث ہمیں کورونا جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔ اسکولوں اور کالجوں کو بند کیا جا رہا ہے، لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں، کاروبار تھم گئے ہیں، معیشت تباہ ہو رہی ہے، اگر ہم نے بروقت اقدامات نہ کیے تو سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہمارے عوامی نمائندوں کو بھی اس بارے میں سوچنا چاہیے۔
پروفیسر فیصل فیاض زبیری کا کہنا تھا کہ سی او پی ڈی جیسی بیماری کی دو اہم وجوہات ہیں جن میں سگریٹ کا دھواں اور آب و ہوا کی آلودگی شامل ہے۔ ہمیں اسموکنگ کو روکنے کے اقدامات کرنے چاہیے لیکن اس کے علاوہ جو نئی چیز آرہی ہے وہ آب و ہوا کی آلودگی ہے اس کی وجہ سے یہ بیماری ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں جو کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہم ماحولیاتی آلودگی کو کم سے کم کریں ،جیسے گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں ایک بڑی وجہ ہے۔
حکومتی سطح پر کچھ ایسا نظام ہونا چاہیے کہ فیول سے چلنے والی گاڑیوں کی تعداد کو محدود کیا جائے اور الیکٹرانک گاڑیوں کی انڈسٹری کو فروغ دیا جائے۔ الیکٹرانک گاڑیوں کی تعداد کو بڑھایا جائے، جس کے باعث فضائی آلودگی کو کم کرنے میں مدد مل سکے گی۔ آلودگی سے بچنے کے لیے ماسک کا استعمال ضروری ہے، ماسک لازمی پہنیں اور جہاں زیادہ دھواں ہو وہاں جانے سے اجتناب کریں۔ یہ سب کچھ ایسے احتیاطی اقدامات ہیں جو بطور قوم ہمیں کرنے چاہئیں۔دیگر ماہرین نے کہا کہ پاکستان میں 45 لاکھ سے زائد افراد سانس کی نالیوں میں تنگی کی بیماری سی او پی ڈی کے مرض میں مبتلا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں یہ بیماری جتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس کے نتیجے میں اموات ہو رہی ہیں۔مردوں میں سگریٹ نوشی سی او پی ڈی کی سب سے بڑی وجہ ہے جبکہ خواتین میں لکڑیاں گوبر وغیرہ جلانے سے پیدا ہونے والے دھویں سے یہ بیماری ہوتی ہے۔ خواتین میں سی او پی ڈی کی شرح 49 فیصد اور مردوں میں 61 فیصد ہے بچوں میں اس کی شرح بہت کم ہے جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کرانک آبسٹریکٹیو پلمونری ڈیزیز، بزرگوں کی بیماری ہے۔ اکثر لوگ اپنی اس بیماری سے لاعلم رہتے ہیں۔
ماہرین نے کہا کہ گزشتہ عشروں میں سگریٹ نوشی کو ایک پرکشش طاقت اور دلیری کی علامت بنا کر پیش کیا گیا جس سے متاثرہ افراد سگریٹ نوشی کا شکار ہوئے اور ان کی اکثریت سی او پی ڈی میں مبتلا ہے۔ اس لیے بتدریج سگریٹ نوشی کی تشہیر پر پابندیاں لگائی گئیں، یہ جس قدر نقصان دہ ہے اسے جرم قرار دیا جانا چاہیے کیونکہ سگریٹ نوشی کے دھوئیں سے اس کے قریب موجود افراد بھی کم و بیش اتنے ہی متاثر ہوتے ہیں جتنا سگریٹ نوشی کرنے والا شخص خود ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ دمہ اور سی او پی ڈی کی علامات تقریبا یکساں ہیں جیسے کھانسی کا بار بار ہونا، سینے میں بلغم کے نتیجے میں سانس لینے دشواری و سانس کا پھول جانا وغیرہ۔ دمہ بچپن سے ہی لاحق ہوجاتا ہے اور یہ ٹھیک بھی ہو جاتا ہے، جبکہ سی او پی ڈی بڑی عمر کے افراد میں ہوتی ہے اور مریض کو سانس لینے میں میں آسانیاں پیدا کرنے کی دوائیں تمام عمر دی جاتی ہیں یہ بیماری ٹھیک نہیں ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ تمباکو کئی اشکال میں استعمال ہوتا ہے، سگریٹ تمباکو، حقہ، شیشہ پینا، اس میں نسوار بھی شامل ہے۔ اسے اگر پچیس سال جاری رکھا جائے تو سی او پی ڈی کا مرض لاحق ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے جب کہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے۔فضائی آلودگی، گاڑیوں کا دھواں، گھریلو آلودگی اس بیماری کا باعث بنتی ہے جس کا سدباب کرنا لازمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سردیوں میں اس کی شرح زیادہ ہے جو ہر سال بڑھتی جاتی ہے، تنگی تنفس سے ہر سال کھانسی اور زکام ہو رہا ہے اور عام آدمی کو زیادہ دیر تک رہتا ہے تو ڈاکٹر سے تشخیص کرانا لازمی ہو جاتی ہے۔ بروقت علاج نہ ہونے اور جلدی تشخیص نہ ہونے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ سانس کی نالیاں سکڑ جاتی ہے اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔سیمینار کے اختتام پر مہمانِ خصوصی پروفیسر افتخار احمد نے تمام مقرین کو یادگاری شیلڈز پیش کیں۔