اوسیاہ کا نام ور سپوت سید حمزہ ظفر بخاری
تحریر : حبیب عزیز

اوسیاہ کا نامور سپوت
سید حمزہ ظفر بخاری
آج کل برادر اسلامی ملک ترکیہ میں آئے تباہ کن زلزلے کا دکھ پورا ملک محسوس کر رہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ ترکی ہمارا قریب ترین دوست ملک ہونے کے ساتھ ساتھ ہر مشکل میں ہمارا غم گسار بھی رہا ہے۔
اسی ترکی میں ہمارے گاؤں کا ایک ایسا نوجوان بھی رہتا ہے جس نے چھوٹی سی عمر میں علم و تحقیق کے میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔ وہ نوجوان اپنے والدین اپنے گاؤں اور اب پورے ملک کے لیے باعث فخر ہے۔
بانڈی سیداں، گاؤں اوسیاہ کی مضافاتی بستی ہے۔ مین روڈ اور مرکزی گاؤں سے دوری کی وجہ سے بانڈی کو کسی حد تک پسماندہ کہا جاسکتا ہے۔ اس بستی کو ماضی قریب میں قدرتی آفت "لینڈ سلائڈنگ” کا بھی سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے اس چھوٹی سی بستی کا حجم مزید سکڑ گیا۔
اس بستی میں سادات کے چند گھرانے بھی آباد ہیں ۔سید شبیر حسین شاہ ایک روحانی ہستی کے طور پر پوری تحصیل میں مشہور تھے۔ میرے پاس ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک تعویذ آج بھی محفوظ ہے جو انہوں نے مجھے میٹرک کے امتحان کے دوران لکھ کر دیا تھا۔
9 ستمبر 1996 کو اس بستی کے ایک نیک نام اور نیک سیرت استاد، سید ظفر حسین شاہ بخاری، کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا، جس کا نام سید حمزہ ظفر بخاری رکھا گیا۔ ظفر بھائی کو میں بچپن سے جانتا ہوں۔ وہ میرے کلاس فیلو امجد بخاری کے بھائی ہیں اور میرے چچا طارق سعید کے رفیق کار بھی۔
ایک چھوٹی سی بستی میں ایک سفید ہوش باعزت استاد کے گھر پیدا ہونے والے بچے نے سائنس کی دنیا میں ایسا کمال حاصل کیا کہ آج مغرب کی بہترین یونیورسٹیاں اسے اپنے ہاں بلانے کے لیے بے قرار ہیں ۔جرمنی اٹلی فرانس برطانیہ غرض ہر ملک کی خواہش ہے کہ وہ اسے عزت بخشے۔ اس کی تحقیق کو اعلی درجے کی تحقیق کے طور ہر دیکھا جاتا ہے۔
اس نوجوان نے اپنی ابتدائی تعلیم گرین لینڈ پبلک سکول روات میں شروع کی۔ ہر امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرتے ہوئے اعلی تعلیمی مدارج تک پہنچا۔ سب سے پہلے اسے سعودی عرب کی مشہور کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کی طرف سے سکالرشپ کی پیش کش ہوئی۔ وہاں پڑھائی کے دوران یہ ذہین نوجوان مغرب کی اعلی یونیورسٹیوں کی نظروں میں آگیا۔ اسے اٹلی کی یونیورسٹی Üniversity Of Venice اور University Of Camerino کی سکالرشپ ملی۔ وہاں سے ہی اس کے تحقیقی سفر کا آغاز ہوا۔
اس کے اساتذہ کے مطابق وہ سائنس کی دنیا کا پہلا طالب علم تھا جس نے تحقیق سے یہ ثابت کیا کہ Cerebral Palsy نامی ہڈیوں کی بیماری جینیاتی تبدیلیوں اور کزنز کی آپس میں شادیوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس کی اس تحقیق اور پروجیکٹ پر اس کے ایک استاد آج بھی ڈنمارک میں کام کر رہے ہیں۔
سید حمزہ ظفر بخاری کو سال 2019 میں ترک صدر رجب طیب اردگان کی جانب سے خصوصی طور پر ترکی میں پڑھنے کا موقع فراہم کیا گیا اور ترکی آنے کی دعوت دی گئی، جسے حمزہ نے بہ خوشی قبول کرلیا۔
علم کو فوقیت دینے والی اقوام ہی دنیا میں سربلند اور ترقی یافتہ کہلاتی ہیں۔ حمزہ کو اس علم کی وجہ سے ترکی میں خصوصی درجہ دیا گیا ہے۔ اسے ترک شہریوں سے زیادہ سہولیات مہیا کی گئی ہیں یعنی وہ جہاں چاہے اور جیسے چاہے ترک حکومت کی سرپرستی میں رہ سکتا ہے۔ حمزہ نے اس عزت افزائی پر ترک قوم کو مایوس نہیں کیا بلکہ ثابت کیا ک پاکستانی نوجوانوں کی سرپرستی کی جائے تو وہ حیرت انگیز کارنامے سر انجام دے سکتے ہیں۔
حمزہ نے صرف آٹھ ماہ میں ترک زبان پر مکمل عبور حاصل کر لیا۔ اس کارنامے پر اسے جون 2022 میں ترکش-C1 سرٹیفیکیٹ دیا گیا۔ یعنی اسے ترکش زبان پر اتنا ہی عبور حاصل ہے جتنا عام ترکوں کو اپنی زبان پر حاصل ہوتا یے۔
ترکی زبان پر عبور حاصل کرنے کے بعد حمزہ نے اپنے کچھ تحقیقی مکالہ جات ترکش زبان میں لکھے، جن کی بنیاد پر اسے مزید وظائف دیے گئے۔ حمزہ نے اس دوران مقابلے کے ایک امتحان میں پورے ترکی میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔
ترکی میں رہتے ہوئے حمزہ نے پھپھڑوں کے سرطان پر تحقیق شروع کردی۔ اس نے اس موذی مرض کی تحقیق کے دوران اپنے اساتذہ سے مل کر ایک ایسی دوا تیار کی جو موجودہ دنیا میں پھیپھڑوں کے سرطان کی سب سے زیادہ پر اثر دوا ہے۔ اس دوا کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ بہت کم قیمت پر دستیاب ہوگی۔ اس پر ابھی تحقیقی کام مکمل نہیں ہوا۔ جوں ہی حمزہ کی تحقیق مکمل ہوگی یہ دوا ہر ملک میں آسانی سے دستیاب ہوگی۔
اس مرض پر مزید تحقیق کے لیے ترک حکومت نے حمزہ کو جرمنی کی مشہور میونخ یونیورسٹی بھیجا۔ جہاں اس کی تحقیق مزید بہتر ہوئی۔ اب پورے مغربی یورپ کی یونیورسٹیاں حمزہ کو خوش آمدید کہہ رہی ہیں۔ وہ کبھی اہک ملک میں ہوتا ہے تو کبھی دوسرے ملک میں۔
حمزہ نے ترکی کو اپنا دوسرا وطن بنالیا ہے۔ ترک حکومت اسے خصوصی اسٹیٹس دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے مغرب کی ہر یونیورسٹی اور ہر تحقیقی ادارہ حمزہ کو خوش آمدید کہتا ہے۔۔۔
اوسیاہ میں پیدا ہونے والے اس نوجوان نے کامیابی کی وہ منازل طے کی ہیں جن تک پہنچنے کے لیے عمریں درکار ہوتی ہیں۔ پورا مغرب اس کی ذہانت، تخلیقیت اور تحقیق کا معترف ہے۔
حمزہ ہمارے معاشرے، خاص کر ہمارے نوجوان بچوں، کے لیے ایک بہترین مثال ہے۔ ایک چھوٹی سی بستی کے محدود وسائل رکھنے والے سفید پوش والدین کی اس قابل فخر اولاد نے پوری جوان نسل کو عملا کر دکھایا کہ خوداعتمادی، صلاحیتوں کے بھرپور استعمال، ذہانت، محنت و ریاضت اور سعی مسلسل سے ہر منزل تک پہنچا جاسکتا ہے۔ دل میں جذبہ ہو اور اخلاص ہو تو محدود وسائل رستے کی دیوار نہیں بن سکتے۔
اللہ تعالی ہمارے گاؤں کے اس قابل فخر نوجوان Hamza Ali Sayyed کو مذید ترقی عطا فرمائے اور اس برادر ملک کی مشکل گھڑی کو آسانی میں بدلے جس نے ایک ناتراشیدہ ہیرے کو حقیقی چمک دمک دی۔
آمین یا رب العالمین۔
اسلام آباد پاکستان
11 جنوری 2023
صاحب مضمون