عبد اللہ ثاقب کا حفظ قرآن اور ابو جی

عبد اللہ ثاقب کے حفظ قرآن کی تکمیل نے یادوں کے کئی دریچے وا کر دیے ۔ والد محترم حاجی محمد عباس عباسی رحمہ اللہ کی اولاد میں یہ پانچواں بچہ ہے جس نے حفظ قرآن کی تکمیل کی ۔ جب کہ چند بچے اس کارِ خیر میں ابھی مصروف ہیں۔ ہمارے بچوں میں سب سے پہلے حفظ مکمل کرنے والی میری دو بیٹیاں تھیں۔ ان کے حفظ قرآن کی ابتدا بھی دلچسپ انداز میں ہوئی ۔ معروف مدرس قرآن اور تنظیم اسلامی کے موجودہ امیرجناب شجاع الدین شیخ سے ایک ملاقات کے موقع پرمیں نے ان سے کہا کہ میری چار بیٹیاں ہیں اور تمنا ہے کہ اللہ بیٹا دے تو اسے قرآن مجید کا حافظ بناؤں ۔ شیخ صاحب نے کہا کہ ’’ بیٹا جب ہو گا سو گا اللہ نے آپ کو بیٹیاں دی ہیں تو آپ انھیں حفظ میں لگا دیں‘‘ ۔ تب میرا خیال یہ تھا کہ بچیوں کو حفظ نہیں کرانا چاہیے کہ وہ بھلا دیتی ہیں ۔ لیکن شیخ صاحب کے مشورے کے بعد میرے خیالات میں تبدیلی ہوئی اور اللہ کی توفیق سے میری دو بیٹوں نے، حفظ قرآن کی ابتدا ’’اقر ا روضۃ الاطفال گڑھی شاہو لاہور جبکہ تکمیل دار الھدی ماڈل ٹاؤن لاہور سے کی۔ اس کے بعد برادرم کلیم الرحمن صاحب کی ایک بیٹی اور پھر ہمارے بچے محمد نے اس مقدس کام کی تکمیل کی اور اب برادر کلاں حاجی حبیب الرحمن صاحب کے پوتے اور عزیزم ثاقب کے بیٹے عبد اللہ نے یہ کارِ نمایاں سر انجام دے کر ہمارے دل کو مسرت و تشکر سے بھر دیا ۔سرشاری کے اس عالم میں خیال کی بجلی نے کوند کر بتایا کہ درحقیقت یہ والد محترم حاجی محمد عباس رحمہ اللہ(متوفی: ۱۹۸۷ ء) کا فیض ہے۔
کچھ غور کیا تو اس خیال نے یقین کی جگہ لے لی ۔ ابو جی ایک مذہبی شخصیت تھے ۔ ۱۹۸۰ ء کی دھائی کے اوائل میں آپ جب کراچی کے علاقے لانڈھی ٹاؤن میں مقیم تھے تو اس وقت آپ ایک طرف تو علامہ شفیع اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ کے جلسوں میں شرکت کیا کرتے تھے اور دوسری طرف آپ کا تعلقِ ارادت پیرمیر عزیز اللہ حقانی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب حضرت میر عزیز اللہ حقانی لانڈھی کی ایک پہاڑی کی کھوہ میں چلہ کش تھے ۔ پیر صاحب نے اپنی ایک کتاب’’ مجموعہ احادیث ‘‘ کامل حقانی کے دیباچے میں لانڈھی کی ایک شخصیت کا ذکر کیا ہے جو پیر صاحب کی خدمت میں کھانا وغیرہ پہنچایا کرتی تھی۔ چوں کہ والد محترم ہوٹل کا کاروبار کیا کرتے تھے تو اس بنا پر بندے کا گمان ہے کہ شاید وہ شخصیت (خدا کرے) والد محترم ہی رہے ہوں ۔ واللہ اعلم ۔
بھٹو صاحب کے دور میں چلنے والی تحریک ختم نبوت میں والد محترم ایک کارکن کے طور پر تحریک کا حصہ بنے ۔ والد صاحب کی ڈائری میں موجود اخباری تراشوں سے معلوم ہوتا ہے کہ لانڈھی کے جلسوں میں والد صاحب اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیا کرتے تھے ۔ ایک اخبار میں والد صاحب کی تصویر اس سرخی کے ساتھ موجود ہے کہ ’’لانڈھی کی معروف سماجی شخصیت محمد عباس عباسی پیر صاحب کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کرتے ہوئے،، ۔ ایک تصویر میں پیر صاحب ننگی تلوار ہاتھ میں لے کر خطاب کر رہے ہیں جب کہ عقب میں والد محترم کھڑے نظر آتے ہیں۔
اس کے بعد والد محترم ملازمت کے سلسلے میں سعودی عرب چلے گئے ۔ اس دوران آپ کا تعلق ، نقش بندی سلسلے کے دربار عالیہ عید گاہ شریف راولپنڈی سے قائم ہو چکا تھا ۔ آپ کا تعلق بیعت و ارادت پیر حافظ حبیب الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ ( موجودہ گدی نشین پیر نقیب الرحمن صاحب کے والد) سے تھا اور آپ کا شمار حضرت کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ پیر صاحب جب بھی مدینہ منورہ جاتے تو والد محترم کے مہمان ضرور بنا کرتے تھے۔ میں نے اپنے بچپن میں پیر صاحب کا دیدار اس وقت کیا جب وہ بانڈی لوئر بیروٹ میں ہمارے غریب خانے پر تشریف لائے تھے ۔ مجھے یاد ہے ہماری بیٹھک میں جسے ہماری اصطلاح میں ’’بُنہے اندر ‘‘ کہا جاتا تھا ، فرشی نشست کا اہتمام تھا اور ہمارے خاندان کے کئی لوگ اس کمرے میں جمع تھے اور ہم بچے باہر سے ’’اوکڑ اوکڑ ‘‘ یعنی جھانک جھانک کر اندر دیکھتے رہے تھے ۔
پیر صاحب کے ساتھ والد محترم کے تعلق کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے سال ۲۰۲۴ ء میں ، میں راولپنڈی گیا تو ہمارے بہنوئی بھائی نفیس احمد کے ہمراہ عید گاہ شریف چلا گیا ۔ خوش قسمتی سے پیر نقیب الرحمن صاحب تشریف فرما تھے ۔ مصافحے اور دست بوسی کے بعد میں نے عرض کیا کہ میں بیروٹ سے آیا ہوں تو ایک دم انھوں نے کہا وہاں ہمارے حاجی عباس صاحب ہوا کرتے تھے جو مدینہ منورہ میں وفات پا کر جنت البقیع میں مدفون ہیں ، عرض کیا میں انھی کا بیٹا ہوں تو بہت خوشی کا اظہار کیا اور اپنے چند قریبی ساتھیوں کو نزدیک بلا کر تعارف کرایا کہ یہ حاجی عباس صاحب کے بیٹے ہیں ۔ پھر والدہ محترم اور بھائیوں کی خیریت دریافت کی اور کہنے لگے میں بیروٹ آپ کے گھر بھی گیا تھا سڑک سے نیچے بہت مشکل پہاڑی راستہ سے ہم آپ کے گھر پہنچے تھے‘‘ ۔ پھر ہم دونوں کو مہمان خانہ میں بھیجا اور خادمین کو کھانا کھلانے کی تاکید کی اور کھانا کھانے کے بعد ہم نے آپ سے رخصت چاہی ۔
پیر صاحب کا خاندان حافظ خاندان ہے آپ خود ، آپ کی اولاد ،آپ کے والد دادا سبھی حافظ تھے ۔ عید گاہ شریف میں ایک مدرسہ قدیم دور سے قائم ہے۔غالباً اسی تعلق کا اثر تھا کہ والد محترم اپنی اولاد بلکہ خاندان میں حفظ ِ قرآن مجید کا سلسلہ شروع کرنا چاہتے تھے ،چناں چہ ا نھوں نے بھائی مطیع الرحمن مرحوم اور تایا زاد بھائی نیاز الرحمن صاحب کو راولپنڈی کے کسی مدرسے کے شعبہ حفظ میں داخل کرایا ۔ کسی وجہ سے یہ دونوں حضرات وہاں اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور والد صاحب کی خواہش پوری نہ ہوئی۔ لیکن یہ آپ کی خواہش اور نیت کی سچائی ہی تھی کہ آں جناب کے انتقال کے تقریباً پینتیس سال بعد اللہ نے ان کی اولاد میں حفظ قرآن کا سلسلہ چلا دیا ۔ اس میں ہمارے بچوں اور ان کے اساتذہ کرام کی کوشش و محنت کو بھی یقیناً دخل ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ والد صاحب کا فیض ہے جو ان کی اولاد میں جاری ہوا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس فیض کو تا قیامت جاری رکھے اور ہماری اولادوں میں ایسے مرد و زن پیدا کرے جو اس کی آیات پڑھتے پڑھاتے ، تعلیم کتاب و حکمت میں مصروف ر ہیں اور ہمارے بچوں کو والد محترم اور خود ہمارے لیے صدقہ جاری بنائے رکھے ۔ آمین
جمیل الرحمن عباسی
۲۴ جنوری ۲۰۲۵ ء
بانڈی چندال ، لوئر بیروٹ

ایک تبصرہ چھوڑ دو