اختر رضا سلیمی کا تیسرا ناول۔۔۔لواخ

برطانیہ میں مقیم نامور شاعرہ گلناز کوثر کی تحریر

 

downloadگلناز کوثر

 

"لواخ” ختم کیے گھنٹہ دو گھنٹہ ہو گئے ہیں جسے میں کئی دنوں سے تھوڑا تھوڑا جی میں اتار رہی تھی لیکن آج شروع سے آخر تک ایک نشست میں پڑھا ہے۔۔۔۔ "لواخ” کو پڑھنے کے دوران "جاگے ہیں خواب سے” اور "جندر” بھی ذہن میں تازہ ہو گئے اور میں سوچ رہی ہوں اس مصنف پر ایسی کیا خاص واردات گزری ہو گی جس نے اسے اپنی زمین اور اجداد کے ساتھ ایسی محبت سے جوڑ دیا ہے جو زمانوں کی چھلانگوں اور پھلانگوں کو بھی خاطر میں لانے پر تیار نہیں ہے۔۔۔۔ تینوں ناول شکل و صورت اور قد کاٹھی میں ایک دوسرے سے الگ ہونے کے باوجود جیسے ماں جائے لگتے ہیں ۔۔۔ ایک کشش ہے ایک تڑپ ہے جو مصنف کو نہ جانے کن صدیوں کی تہہ سے بلاتی ہے اور وہ سحر زدہ کھنچتا ہی چلا جاتا ہے:

بشنواز نے چون حکایت می کند
از جدایی ہا شکایت می کند

دوست تمہیں آخر کیسی ترکیب سے جدا کر دیا گیا ہے تمہارے کُل سے کہ تمہارے تن کا ایک ایک چھید دہائی دیتا ہے۔۔۔۔ اور پھر کیا ہم سے بےبضاعت تمہارے اس تجربے اور واردات کو اپنا تجربہ اور واردات بنانے کے قابل بھی ہیں یا یہ زمانہ یہ وقت تمہارے اندر کے اس اسرار کو کھولنے کی جرات بھی رکھتا ہے:

سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق
تا بگویم شرح دردِ اشتیاق

تینوں ناول اپنے باطن میں کسی روحانی اور قلبی واردات کا تسلسل لگتے ہیں۔۔۔ ایک ٹرانس میں لکھے گئے تین نوشتے جو ایک مخصوص خطے کی تہذیب، روایت، رہن سہن اور ان سب سے زیادہ ان کے جی کا حال بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔۔ اور اپنی صنف کا اعتبار بھی قائم رکھتے ہیں اچھے ناول میں جو لوازمات موجود ہونے چاہییں تینوں میں ان کا دھیان بڑے سلیقے سے رکھا گیا ہے۔۔ اور پھر آپ چاہیں تو ناول سمجھ کر پڑھ لیں چاہیں تو تاریخ کی کتاب۔۔۔ نہ فکشن کا چسکا ٹوٹتا ہے اور نہ تاریخ کا تسلسل چُوکتا ہے۔۔۔۔ تینوں ناول ایک حقیقت کو دیکھنے کے تین مختلف زاویے ہیں۔۔۔۔ خیر یہاں ان تینوں ناولوں کا موازنہ یا ایک ساتھ تذکرہ مقصود نہیں۔ بات "لواخ” تک ہی محدود رہے گی جسے پڑھے چند گھنٹے بیتے ہیں اور میں مسلسل اس کے جادو سے بندھی ساکت و جامد اسی جگہ بیٹھی ہوں جہاں اس کی آخری سطر گہری اداسی کی دھند میں لپٹی اپنے زمانے کو اپنی مٹھی میں دبائے میرے سامنے سے گزری ہے یہ بتاتے ہوئے اور سکھاتے ہوئے کہ ہم خاک کے بگولوں کے علاوہ کچھ نہیں جو کسی غیبی اشارے پر ایک سنسناہٹ کے ساتھ اٹھتے ہیں کئی طرح کی شکلیں بناتے، شور مچاتے گردوپیش میں ہلچل مچاتے اور پھر ایک اور اشارے پر دھڑام سے خاک پر گرتے ہیں اور ایسی صفائی سے اسی خاک کا حصہ بن جاتے ہیں جیسے کہ ہم تو کبھی تھے ہی نہیں۔۔۔۔ لواخ کا انجامی تاثر کم و بیش ایسا ہی ہے۔۔۔۔۔ نوشتے کے ساتھ ہی ایک عہد راکھ اڑاتا دکھائی دیتا ہے۔۔۔ :

"جب نوشتہ چمڑے کی جلد سمیت جل کر مکمل طور پر راکھ ہو چکا تو مجھے لگا میرے سر سے ایک بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہے جسے میں گذشتہ تینتیس برسوں سے اٹھائے پھر رہا ہوں۔ وہ سارے کردار جو میرے حال کو ماضی سے منسلک کیے ہوئے تھے اور میرے زخموں کو تازہ کرتے تھے، یک دم میری آنکھوں سے غائب ہونا شروع ہو گئے”

Akhtar pic

اگر میں "لواخ” نہ پڑھتی تو مجھ تک احتجاج اور آزادی کی وہ لہر کبھی نہ پہنچتی جو کہساروں کا دامن چیر کر نکلی تھی۔۔۔ اٹھارہ سو ستاون کی جنگِ آزادی کم از کم میرے لیے تو اب تک دلی، جھانسی، لکھنؤ ، گوالیار وغیرہ کی کہانی تھی۔۔۔ پتھروں کا سینہ چیر کر نکلتے اس بےبہا جذبے سے تو میں واقف ہی نہیں تھی جس سے "لواخ” نے میری ملاقات کروائی ۔۔۔ سچی بات ہے کہ میں تو لواخ کے لفظی معنی سے لے کر اس کی روایت کے بارے بھی کچھ نہیں جانتی تھی ۔۔۔ لواخ جسے تنور نما گول اینٹوں سے چُنے ہوئے گڑھے کے اندر سوکھی لکڑیوں کو جلا کر کسی بلند پہاڑی پر یوں روشن کیا جاتا ہے کہ دور دراز بستیوں تک اس کی روشنی پہنچے یہ تو ہو گئی سیدھی بات مگر لواخ سے متعلق روایت اس کے جلانے کا طریقہ اور مقصد ۔۔۔ یہ پورا عہد تھا جو بگولا بن کر ناول کے اندر شور مچاتا اٹھتا ہے اور پھر واپس خاک بن جاتا ہے۔۔۔ "لواخ” کی کہانی گو اٹھارہ سو ستاون کی جنگِ آزادی میں ہزارہ کے جری اور غیور باسیوں کی گمنام جدوجہد کے گرد گھومتی ہے۔ جس کا میدانی دنیا نے شاید زیادہ نوٹس ہی نہیں لیا لیکن ہم اس ناول کے ذریعے اس زمانے کے ہزارہ کو چلتے پھرتے دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔ یہ پرعزم اور کبھی نہ جھکنے والی قوم کی کہانی ہے جہاں ایک سے ایک سورما موجود تھا۔۔۔ جو دلی سے اٹھی ایک ہلکی سی پکار پر توپوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے ۔۔۔۔ چالیس پچاس برس پر محیط عرصے کے دوران ہزارہ میں مقیم لوگوں کی زندگیوں کو جیسے مصنف نے ناول کے اندر کھول کر رکھ دیا ہے۔۔۔ خاندانی نظام اور اس سے منسلک روایات و جذبات۔۔۔ اپنے لوگوں اور آزادی سے محبت ۔۔۔ سچائی اور اصول پسندی کی چمک کرداروں کے چہروں پر صاف دکھائی دیتی ہے۔۔۔ جہاں کی عورتیں بھی اس قدر باوقار اور غیور ہیں کہ لڑائی میں ناکامی کے بعد دشمن کو چہرہ دکھانے کی بجائے اپنے ہاتھوں اپنے سینے میں خنجر گھونپنا زیادہ مناسب خیال کرتی ہیں ۔۔۔۔ ناول جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے مرکزی کردار کے ذریعے ہم اس سارے ماحول کو آہستہ آہستہ رزقِ خاک ہوتے بھی دیکھتے ہیں۔۔۔ لوگ بدلتے ہیں، چیزوں اور جگہوں کے معنی بدلتے ہیں ۔۔۔۔ اور بالآخر لواخ کے معنی بھی بدل جاتے ہیں۔۔۔۔ آخرکار مرکزی کردار ناول کے انجام پر اُس زریں دور کی آخری نشانی کو آخری بار لواخ روشن کر کے اس میں جھونک دیتا ہے۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی جیسے شور تھم جاتا ہے ۔۔۔۔ ایک عہد ڈوبتا اور دوسرا ابھرتا نظر آتا ہے۔۔۔۔

جس طرح یہ ناول لکھا گیا ہے میں اسے مصنف کا کمال کی انتہا پر پہنچنا کہتی ہوں۔۔۔ سطر سطر دل میں اترتی ہے ۔۔۔۔ دو سو کے قریب صفحات پڑھتے پڑھتے صدیاں گزرتی محسوس ہوتی ہیں۔۔۔ نثر کا جادو اپنی حدیں پار کرتا دکھائی دیتا ہے:

"میں نے موت کو صرف ایک مرتبہ قریب سے دیکھا تھا; اتنے قریب سے کہ اگر میں اسے نہ مارتا تو آج زندہ نہ ہوتا; بےشک وہ شخص جس پر میں فتح پا چکا تھا اور مجھ سے زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا، مجھ پر ہاتھ نہ اٹھاتا، جب بھی۔”

download 1 1

ایسی شدت اور کاٹ تحریر میں یونہی نہیں آ جاتی اس کے لیے لمبی ریاضت کی ضرورت ہے اپنے اندر بہت گہرا اترنے اور اپنے باہر بہت دور نکلنے کی ضرورت ہے۔۔۔ اختر رضا سلیمی طویل جملوں کی تکنیک استعمال کرتے ہیں مگر تحریر کو گنجلک نہیں ہونے دیتے نہ ہی ابلاغ متاثر ہوتا ہے۔۔۔۔ ایک اچھے ناول میں جو چیز قاری کو آخر تک باندھے رکھتی ہے "لواخ” میں وہ آخری سطر تک برقرار رہتی ہے۔ یہی وہ شدتِ اشتیاق ہے جو بےجان واقعات کو یوں آنکھوں کے آگے زندہ کر دیتی ہے کہ جیسے ہم انہی پہاڑوں اور وادیوں میں گھوم رہے ہیں لواخ جس کے ناول شروع کرنے سے پہلے معنی بھی معلوم نہیں ہوتے اختتام تک اس سے ایک گہری جذباتی وابستگی پیدا ہو جاتی ہے دریا جو کہانی کا خاموش کردار ہے اس کے پانی کی آواز سنائی دیتی ہے۔۔۔ ہزارہ جسے بطورِ خاص کبھی دیکھا نہ سوچا ہمارا اپنا وطن بن جاتا ہے اور جنگ میں کام آئے لوگوں پر یوں فخر محسوس ہوتا ہے جیسے ہم انہی میں سے ایک رہے ہوں۔۔۔۔ اب اس سے زیادہ کسی ناول کی خوبی کیا ہو گی کہ وہ آپ کو اپنے ساتھ ایک رشتے میں ہی باندھ لے۔۔۔۔ خوب جئیں ایسے گم زمانے زندہ کرنے والے لوگ ۔۔۔ سلامت رہیں آنکھیں جن میں صدیاں کروٹیں لیتی ہیں۔۔۔۔ اختر رضا سلیمی کا شکریہ کہ انہوں نے یہ خوبصورت تحفہ بھیجا اور چنگیز راجہ کا شکریہ کہ وہ اسے اپنے ہمراہ لائے۔۔۔ یہ ناول پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے اور میرے خیال سے آج کل لکھے جا رہے ناولوں میں سرِ فہرست رکھا جا سکتا ہے۔۔۔

گلناز کوثر
یوکے
یکم دسمبر دوہزار تئیس

ایک تبصرہ چھوڑ دو