90 کی دہائی تک پہاڑی علاقوں میں شادی بیاہ کیسے ہوتے تھے ؟

ماضی کے جھروکوں سے.... تحریر محمد نعیم

b4978e14 4ed3 486a 8e1c b5872f9e53f9صاحب تحریر .. محمد نعیم

 

90 کی دہائی میں پہاڑی علاقوں کے گاؤں دیہات میں شادی ایک لمبا چوڑا ایونٹ ہوتا تھا۔ رشتہ پکا کرنے کے لیے بھی باقاعدہ ایک تقریب (دعا خیر، یا اللہ خیر) کے نام سے ہوتی، کچھ ماہ بعد لڑکے والے باقاعدہ لڑکی کے لیے جوڑا لے کر جاتے، منگنی کی اس تقریب میں بھی دونوں جانب سے تقریباً چالیس پچاس خواتین کی شرکت لازمی ہوتی۔

لڑکے والوں کی جانب سے باقاعدہ ایک گروپ کی شکل میں لڑکی والوں کے گھر جانے کا اہتمام ہوتا، اور کپڑوں اور انگوٹھی کے علاوہ ڈیڑھ سو افراد کے حساب سے تقریباً ہائی ٹی (چائے بسکٹ) کا بھی سامان ساتھ لے جایا جاتا، جس میں مختلف قسم کے بسکٹ، مٹھائی ، نمک پارے اور کیک وغیرہ شامل ہوتے۔ پھر کچھ ماہ بعد جب دونوں خاندانوں کا شادی کا ارادہ بنتا تو شادی کا دن طے کرنے کے لیے دوبارہ اسی نوعیت کی ایک محفل رکھی جاتی، جسے (تیہاڑا بنہنا) یعنی شادی کی تقریب کا وقت مقرر کرنے کی تقریب کہا جاتا۔

دیہاڑا فکس ہونے کے بعد شادی کی اصل تقریبات شروع ہو جاتیں۔ لڑکی والے جہیز (داج) کی خریداری میں لگ جاتے جبکہ لڑکے والے زیور کپڑے بنانےمیں جت جاتے۔ اس دور میں  ایک دلہن کو اوسطاً پانچ تولے سونا حق مہر میں دینے کا رواج تھا۔ دولہا کے دوستوں کا تعین ہوتا۔ دولہا کے دوست بھی تقریباً کوئی پندرہ بیس تو لازمی ہوتے۔ دولہا کے گھر دولہا کے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کے کپڑے سلنے کے لیے باقاعدہ درزی کو لا کر بٹھایا جاتا ، ان درزی صاحب کو ہفتہ دس دن میں دو تین تھان کپڑے کے سینے ہوتے۔ عموماً دولہا کے ساتھ جانے والے تمام دوستوں کے کپڑے ایک ہی رنگ کے ہوتے تھے ۔ درزی صاحب کے پاس کوئی ٹیپ ریکارڈر چل رہا ہوتا جس کے پاس لڑکے بالے بیٹھ کر گپیں لگاتے رہتے۔

6d68ffcb 8d28 4a1c 8361 4155a782b176گاؤں کی شادی میں کھانے کی تیاری کا ایک منظر

شادی سے پانچ سات دن پہلے دولہا دلہن کے خاندان کے مرد اور لڑکوں کو مہانوں کو دعوت دینے کا ٹاسک دیا جاتا۔ اگر کوئی بڑا ہے تو ایک اور اگر ٹین ایج کے لڑکے ہیں تو دو ، دو کے گروپ بنائے جاتے اور محلوں کے حساب سے علاقے تقسیم ہو جاتے کہ کس محلے میں کون سے گروہ نے بیاہ کی دعوت دینی ہے۔ یہ ٹولیاں ایک ایک گھر جاتیں اور ایک باقاعدہ جملے کی صورت میں دعوت دی جاتی، کہ فلاں کے بیٹے فلاں کا، فلاں تاریخ کو بیاہ ہے، آپ سب اہل خانہ نے رات اور دن دونوں وقت بیاہ میں شرکت کرنی ہے۔

اگر کوئی گھر میں نہ ہوتا تو اسی کے گھر سے بجھا ہوا انگارہ (کوئلہ) نکال کر بند دروازے پر دعوت نامہ لکھ دینے کا رواج تھا ۔ شادی میں مہمانوں کو کھانا کھلانے کے لیے زیادہ تر لوگ کوئی بچھڑا یا بھینسا خرید کر لے آتے۔ اس کو ذبح کرنا اس کا گوشت تیار کرنا یہ سب دولہا کے دوست اور قریبی رشتہ دار مردوں کی ڈیوٹی ہوتی تھی۔ پھر شادی کے لیے راشن لانا، روڈ سے اسے اٹھا کر گھر لانا، پڑوس کے گھروں سے برتن اور چارپائیاں جمع کرنا بھی ایک مشن ہوتا تھا۔ مہمانوں کی روٹی پکنے کے لیے باقاعدہ تندور بنا کر لگایا جاتا۔ دیگوں کے نیچے جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کی جاتیں اور بڑی بڑی ٹکڑیوں میں انھیں چیرا جاتا۔ اس وقت کیٹرنگ سروس کا چلن دیہاتوں میں نہیں ہوا تھا۔ لہذا ہر گھر میں بڑے پتیلے، برتن وغیرہ وافر مقدار میں ہوتے اور شادی ماتم کی تقریبات میں ارد گرد کے گھر ایک دوسرے سے چیزیں لے جاتے۔ کسی کے برتن چارپائی کو گم ہونے یا تبدیل ہونے سے بچانے کے لیے ہر گھر والوں نے باقاعدہ اس پر کسی رنگ وغیرہ سے کوئی نشانی لگائی ہوئی ہوتی تھی۔

چاولوں کو چھاننے ، لہسن چھیلنے کا کام خواتین کرتیں جبکہ پیاز ، ٹماٹر اور آلو وغیرہ کاٹ کر باورچی کو لڑکوں کی ٹولیوں نے فراہم کرنے ہوتے تھے ۔ شادی کی مرکزی تقریب سے دو تین دن پہلے چھوٹی چھوٹی تقریبات شروع ہو جاتیں جس میں قریبی رشتہ دار آتے، شادی سے ایک دن پہلے کچی مانڑیں( مایوں) اور شادی کی رات کی تقریب کو پکی مانڑیں(مایوں) کہا جاتا۔ اس میں دولہا کے سارے دوست اور رشتہ دار اسے سلامی کے پیسے دیتے، دولہا کا منہ میٹھا کراتے، خواتین مختلف کاموں کے ساتھ ساتھ شادی کی مناسبت سے گیت گاتیں۔ جسے ماہیے (یا گالہیں) کہا جاتا ہے اور اس میں دولہا کی تعریفیں کی جاتیں۔ دولہا کو مایوں بٹھانے کے بعد مرد حضرات صبح کی بڑی دعوت کی تیاری میں لگ جاتے. کسی کے سامنے پیاز کا ٹوکرا رکھا ہوتا تو کوئی کسی بڑے پتیلے میں ٹماٹر کاٹ رہا ہوتا یا آلو چھیل رہا ہوتا۔ پیاز کاٹنے کے لیے ایسے بندے کا انتخاب کیا جاتا جو کسی ہوٹل وغیرہ پر کام کا تجربہ رکھتا ہو ، اور وہ تیز چھری کے ساتھ کسی ماہر شیف کی طرح لکڑی کی میز کو کٹنگ بورڈ بنا کر دھڑا دھڑ کٹی پیاز کے ڈھیر لگاتا جاتا۔

جو کام نہیں کر رہے ہوتے وہ تاش یا کیرم بورڈ کھیلنے بیٹھ جاتے۔ اور رات کے آخری پہر جا کر سب سوتے۔ باورچی صرف اپنے ساتھ دیگیں اور دیگ کے بڑے بڑے چمچے لاتا۔ اکثر جب دیگ سے چاول نکل رہے ہوتے تو اس دیگ کے پیندے میں لگے ہوئے چاول الگ رکھ دیئے جاتے۔ اس کھرچن کو (کرہوڑی) کہا جاتا۔ اس کرہوڑی کی بڑی ڈیمانڈ ہوتی۔ اور اگر مل جاتی تو بہت مزے سے کھاتے۔ گاؤں کی شادیوں میں زردے کے بعد زیادہ تر لوگ کرہوڑی کی تلاش میں ہی دیکھے۔

کھانا کیسے سرو کیا جاتا تھا؟

شادی والے دن تقریباً 9 دس بجے سے مہمان آنا شروع ہو جاتے۔ پہلے پہل تو لوگوں کو چھتوں پر ہی چارپائیوں پر چار چار کی ٹولیوں میں بٹھا کر پراتوں میں چاول اور اوپر سے گوشت کا شوربے والا سالن ڈال کر دیا جاتا۔ ایک پھیری والا بالٹی بھر کر سالن لیے چارپائیوں کے درمیان گھومتا رہتا اور لمبے دستے والے ڈونگے (چمچے) سے سالن ڈالتا جاتا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مہمانوں کے کھانے کے لیے ایک کمرہ مختص ہونے لگا اور وہاں چٹائیاں بچھا کر اور فرشی دسترخوان لگا کر مہمانوں کو بٹھایا جاتا۔ کمرے کے سائز کے حساب سے مہمانوں کی ٹولیاں کھانے کے لیے بلائی جاتیں اور ایک گروہ کے اٹھتے ہی سرونگ والی ٹیم دھلے ہوئی پلیٹیں وغیرہ لگا کر مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے کھڑی ہوتی۔ یہ بڑا مہذب طریقہ ہوتا تھا مہمانوں کو کھانا دینے کا۔ جہاں کھانا دیا جا رہا ہوتا وہ دروازے کے پاس ایک پڑھا لکھا بندہ کاپی پنسل لے کر بیٹھ جاتا اور مہمان اسے نیندرے (نیوندرے) کے پسیے دیتے۔ اور وہ صاحب کاپی پر پیسے دینے والے کا نام ، اس کے محلے کا نام اور آگے دیئے گئے پیسے لکھ لیتے۔

68cb725c 3b96 4e21 9118 115e0fb74cfeدلہن کو ڈولی میں بٹھا کر لیا جا رہا ہے

جب سے شادی ہال اور بوفے سسٹم آیا ہے۔ مہمانوں کو قطاروں میں لگ کر کھانا خود نکالنا پڑتا ہے ۔ ایک عجیب ہنگامہ آرائی اور بعض جگہ دھکم پیل دیکھنے کو ملتی ہے۔ گاؤں کی شادیوں میں خواتین کو کھانا کھلانا عموماً مشکل ترین کام ہوتا تھا۔ کیوں کہ ہر ایک کو اپنی کسی رشتہ دار کے لیے یا پڑوسن کے لیے اچھا اور لوازمات والا کھانا چاہیے ہوتا تھا اور اگر کسی تک کھانے کی کوئی چیز نہ پہنچ پاتی تو عموماً ناراضگی کا خطرہ رہتا۔ جب مہمان کھانے سے نمٹ جاتے تو مولوی صاحب کی ہمراہی میں جنج کی صورت میں لڑکی والے گھر جاتے۔ جہاں اکثر لڑکے والوں کی طرف سے آنے والے مہمانوں کی خاطر مدارت کا خصوصی انتظام کیا جاتا۔ نکاح کی تقریب میں نکاح نامے کا فارم بھرنے کے بعد مسنون طریقے سے خطبہ نکاح پڑھا جاتا ، پھر سب شرکاء کو بعد از نکاح منہ میٹھا کرنے کے لیے پتاشے یا چھوٹی چھوٹی دانے دار سی گول مٹھائی دی جاتی۔

اس کی بعد دولہا دوستوں کے ساتھ واپس آ جاتا ۔ جبکہ دلہن کے رشتہ دار دلہن کی ڈولی چھوڑنے دولہا کے گھر آتے۔ شادی کے بعد بھی دلہن کی میکے اور سسرال جانے کی باقاعدہ ترتیب ہوتی جیسے تیسرا، ساتواں (مطلب تیسرے دن یا ساتویں دن دلہن میکے جائے گی) یوں دلہن کے آنے جانے میں بھی اس کے ساتھ کیک بسکٹ ، بن وغیرہ قسم کی سوغاتیں ارسال کی جاتیں ، جنہیں آس پڑوس اور رشتہ داروں میں بھی تقسیم کیا جاتا۔ کئی سال ہو چکے گاؤں کی کسی شادی کا یوں قریب سے مشاہدہ نہیں کر سکا ہوں، نہ ہی اپنی شادی یوں ہوئی ہے کہ اس میں یہ ساری رسمیں ہوتیں۔ لہٰذا اب کیا صورت حال ہوتی ہے۔ اس کا علم نہیں ۔

 

محمد نعیم
2 جون 2024

ایک تبصرہ چھوڑ دو