شریف منّور۔حیدرآباد کا ایک گمنام شاعر

شریف منور حیدرآباد سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک خوش فکر شاعرگزرے ہیں لیکن حیدرآباد سندھ کے کسی تذکرے میں ان کا تذکرہ ڈھونڈنے سے نہیں ملتا ہے ان کے انتقال کو دہائیاں گزر چکی ہیں اگر آج ان پر قلم نہ اٹھایا جاتا تو ممکن تھا گوشۂ گمنامی میں رہتے.

شریف منور حیدرآبادکے کہنہ مشق شاعر تھے ان کے گوشۂ گمنائی کی وجہ شاید مشاعروں میں عدم شرکت ہے , تنہائی تھے:
قرض ِ تنہائی کچھ ایسا ہے منّور ؔ سرپر
چونک اٹھتاہوں میں دستک ہوکسی کے درپر

شریف منورؔ قیام پاکستان کے بعد کے اُن ابتدائی شعرا میں شامل ہیں جن کے بغیر حیدرآباد کا شعری ماحول نامکمل رہتا ہے لیکن تذکروں میں اِن کا ذکر نہ حیران کن ہے وہ”تعارف“کے حرفِ اول میں لکھتے ہیں: ”میری شاعری کی ابتدا 1955ء میں حیدرآباد (سندھ) میں ہوئی۔ پہلے پہل بچوں کے لیے نظمیں لکھیں باقاعدہ شعر گوئی کاآغاز 1960ء میں ہوا۔ابتداہی سے قابل ؔاجمیری مرحوم اورجناب اعجازؔاحسانی کی قدم قدم حوصلہ افزائی نے اس مشغلے کوجاری رکھنے میں بڑی مدد کی۔ جناب رئیس امروہوی کی بے پایاں شفقت اور ہمت افزائی سے یہ مشغلہ، وظیفۂ حیات بن گیا۔“

شریف منور جون 1945ء میں بھکری اجمیرشریف میں پیدا ہوئے۔ والدین نے اس بچے کانام شریف احمد رکھا جو بعد میں شریف منورؔ کے نام سے ادبی دنیا میں معروف ہوئے۔ مکمل نام شریف احمد منور چشتی تھا۔ ان کا خاندان قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے حیدرآباد میں فقیر کاپڑ کے قریب رہائش پذیر ہوا۔ یہیں شریف منور کا بچپن اور زمانۂ طالب علمی گزرا، انھوں نے مختلف تعلیمی مدارج طے کرتے جامعۂ سندھ سے ایم اے معاشیات کی اعلیٰ سند حاصل کی۔ 1983ء میں لیور کا کینسر تشخیص ہوا، اسی سال نومبر کی سترہ تاریخ کو کراچی میں انتقال ہوا۔ بڑے صاحبزادے سے موسوم ایک شعر ہے:
؎ غیروں کے گھر سے بھی اگر آئی صدائے طفل
محسوس یہ ہوا میرے بیٹا نجیب ہے

ان کے دوست واحباب میں جن شخصیات کا ذکر ملتا ہے ان میں قابل ؔاجمیری، اعجازؔاحسانی،رئیس امروہوی،جون ایلیا، محمد علی صدیقی، حسن عابد، راشد مفتی، قمر آرزو، مرغوب اختر اوررزاق طاہرانی شامل ہیں، جون ایلیا اورمحمد علی صدیقی سے بہت کچھ ]اصلاح لی[سیکھا۔
شاعری کی ابتدا حیدرآباد سندھ سے کی. چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

یہ حسن, یہ خلوص, یہ چاہت نہ آئی تھی
جب اپنے درمیان ضرورت نہ آئی تھی

آٹھ گیا ہے دنیا سے ذوق ہی سماعت کا
اب مرے تعاقب میں خود مری صدائیں ہیں

یہ بھی اعزاز کوئی کم تو نہیں ہے یارو
لوگ ہر شخص کو گالی بھی کہاں دیتے ہیں

نوٹ: یہ درج بالا عنوان سے لکھے گئے مقالے کا حصہ ہے جو ایچ ای سی کے تسلیم شدہ مجلے میں رواں ماہ شائع ہوا ہے.

خصوصی شکریہ
رشید احمد قریشی (رشتے دار)
اوصاف حسین (بھتیجا)
جاوید پارس (رشتے دار)
نجیب شریف (بیٹا)
پروفیسر پرویز احمد (مترجم)

مقالہ نگار:
حسن راشد
ڈاکٹر شفیق احمد شاہانی

ایک تبصرہ چھوڑ دو