اختر رضا سلیمی نے "لواخ” پھر روشن کر دیا

اختر رضاسلیمی خطہ کوہسار سے تعلق رکھنے والے نامور شاعر ،ادیب اور دانشور ہیں۔ اردو اور ہندکو زبان کے شاعر، ناول نگار اور اکادمی ادبیات پاکستان کے جریدہ ادبیات کے مدیر ہیں۔ان کے پانچ شعری مجموعے اور دو ناولٹ شائع ہو چکے ہیں۔ پہلا ناول "جاگے ہیں خواب میں، 2015ء میں 1001 الک الگ سرورق کے ساتھ شائع ہوا، یہ 1001 وصی حیدر کے بنائے مصوری کے نمونے تھے، جن کو بطور سرورق استعمال کیا گیا۔دیہی پس منظر میں لکھا گیا ان کا دوسرا ناول "جندر” بے پناہ مقبولیت سمیٹ چکا ہے اور اب "لواخ” کی باری ہے، جس کے بارے میں آپ آگے چل کر پڑھیں گے۔

Akhtar pic jpg

اختر رضا سلیمی 16 جون، 1974ء کو کیکوٹ، ہری پور، خیبر پختونخوا، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندانی نام سردار محمد پرویز اختر ہے۔ اختر رضا سلیمی نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی بعد ازاں وہ کراچی چلے گئے جہاں سے میٹرک کاامتحان پاس کرنے کے بعد وہ راولپنڈی منتقل ہو گئے۔ انہوں نے انٹرمیڈیٹ راولپنڈی بورڈ سے، گریجویشن علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے اور ایم اے (اردو) سرگودھایونیورسٹی سے کیا۔ 2006ء میں انہوں نے اکادمی ادبیات پاکستان میں اپنی ملازمت کا آغاز کیا، جہاں آج کل وہ اردو ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔ وہ اکادمی ادبیات پاکستان کے سہ ماہی جریدے ادبیات کے مدیر بھی ہیں۔(بشکریہ وکی پیڈیا)

اختر رضا سلیمی کے نئے ناول "لواخ” پر ممتاز شاعر اور ادیب احمد حسین مجاہد کا تبصرہ

2b76412b cc70 4cb3 86d0 2ba0f45d2246 jpgاحمد حسین مجاہد

"تو ایسے میں وہ پہاڑ کی چوٹی پر لواخ روشن کرتے تھے اور حلیف لواخ کے شعلے دیکھ کر سمجھ جاتے تھے کہ نصرت کے لیے پکارا جا رہا ہے ۔ پھر مری میں برف کے بجائے توپوں کے شعلے اگلتے دہانوں نے لواخ روشن کرنے اور نصرت کے لیے نکلنے والوں کو داستان بنا دیا ۔ لواخ بجھ گئے اور ایسے بجھے کہ پھر کبھی کسی نے ان کی ایک چنگاری تک نہ دیکھی ، چنگاری تو کیا راکھ بھی باقی نہ رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہانیاں گم ہوتی چلی گئیں ، کردار رخصت ہو گئے اور پہاڑوں نے خاموشی اوڑھ لی ۔ ندی ہرو جس نے کبھی کسی المیے کو جنم نہیں دیا ، کہانیوں کو معدوم ہوتے دیکھتے رہی ۔ پھر یوں ہوا کہ شہر کے دوسرے کنارے سے ایک شخص آیا اور اس نے پہاڑوں کی کوکھ میں خفتہ کہانیوں سے سلسلہ ء کلام کا آغاز کیا ۔ اس شخص نے صدیوں بعد ایک بار پھر لواخ روشن کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اِدھر اُدھر سے کئی کردار اس کی نصرت کے لیے دوڑے چلے آئے ۔

اب یوں ہے کہ لواخ ایک علامت بن گیا ہے ، آفاقی علامت ، جس کی جڑیں ماضی میں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ زمانوں اور زمینوں کے نقطہ ء اتصال پر روشن لواخ کے شعلوں سے ایک نئی کہانی کا ظہور ہو رہا ہے ۔ ہم سب اس کہانی کا کردار ہیں ۔ یہ دنیا ایک لواخ ہی تو ہے اور ہم اس لواخ کا ایندھن ہیں ۔ ہمارے مسودے ، ہماری تلواریں ، ہمارا ماضی ، ہمارا حال اور مستقبل ، ہماری کہانیاں ، ہمارے کردار ، ہماری روایات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سبھی کچھ اس بھڑکتے لواخ میں راکھ ہو رہا ہے ۔ مگر ایک شخص ہے کہ اس لواخ سے کہانیوں کو زندہ سلامت باہر نکال لانے اور ان کی سانسیں بحال کرنے میں سرخ رو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لواخ پھر سے روشن ہو گیا ہے ، روشن ہی نہیں ہوا ، اب ایک آفاقی علامت بن چکا ہے ۔۔۔۔ آپ اختر رضا سلیمی کا ناول پڑھیں گے تو اس روشن لواخ سے بہت کچھ لے کر واپس آئیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا شاید وہیں اس لواخ کے پاس آلتی پالتی مار کے بیٹھ جائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے میں اب تک جندر میں بیٹھا ہوا ہوں اور دور پہاڑ کی چوٹی پر روشن لواخ مجھے اپنی جانب بلا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لواخ کیا ہے ؟

a08f482a 431e 4b41 9a81 4394d78035b2 jpg
اختر رضا سلیمی کے نئے ناول "لواخ” کے حوالے سے میری پوسٹ کے بعد کئی احباب نے مجھ سے یہ پوچھا کہ "لواخ ” کسے کہتے ہیں ۔

یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ "لواخ” اختر رضا سلیمی کے نئے ناول کا نام ہے ۔ پہلے تو یہ جان لیجیے کہ اختر رضا سلیمی نے جس لواخ کے نام پر اپنے ناول کا نام رکھا ہے اس کا عربی اور فارسی لواخ سے کوئی معلوم تعلق نہیں. بہت ممکن ہے کہ یہ لفظ "لَو "بمعنی "روشنی ” سے نکلا ہو اور لو کے توسیعی معانی کا غماز ہو ۔ جس لواخ کے بارے میں احباب جاننا چاہتے ہیں اس کا تعلق صرف اس علاقے سے ہے جہاں سے اردو دنیا کو اختر رضا سلیمی جیسا نابغہ ملا۔

یہ علاقہ ہزارہ میں ہے ، اس کے مشرق میں پنجاب کا مشہور سیاحتی مقام ” مری ” اور جنوب میں اسلام آباد واقع ہے ۔ 1857 کی جنگ ِ آزادی میں انگریزوں اور بعد ازاں سکھوں کے خلاف اس علاقے کے لوگ مسلسل برسرِ پیکار رہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ہراول دستے کی حیثیت رکھتے تھے تو قطعاً بے جا نہ ہو گا ۔ ان میں اختر رضا سلیمی کا قبیلہ (کڑلال) بھی شامل تھا ۔

انگریز اس علاقے پر ہمیشہ نظر رکھتے تھے کہ ان کے خیال میں یہیں سے شورشیں پھوٹتی تھیں ۔ قابض قوتوں کے خلاف معرکہ آرا اقوام باقاعدہ تربیت یافتہ تو نہ تھیں لیکن ان کا مقصد ایک ہی تھا ، اس لیے باہمی تعاون سے وہ جب بھی موقع ملتا دشمن پر کاری ضرب لگاتے تھے اور فریق ِ مخالف بھی کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔

کسی گاؤں پر دشمن کے حملے کی صورت میں وہاں کے لوگ پہاڑ کی چوٹی پر الاؤ جلا دیتے تھے جس کے شعلے دور دور سے دکھائی دیتے تھے ۔ لواخ کا روشن ہونا اس بات کی علامت تھا کہ دشمن سر پر آ پہنچا ہے ۔ الاؤ تو خیر کہیں بھی جلایا جا سکتا ہے لیکن لواخ پہاڑ کی چوٹی پر ایک بہت بڑے تنور نما گڑھے میں روشن کیا جاتا تھا ۔ لواخ روشن ہوتے ہی قریب کے گاؤں سے کچھ لوگ نصرت کو لپکتے تھے اور کچھ اپنے گاؤں کی حفاظت کے لیے نکل کھڑے ہوتے تھے ۔ معرکہ آرائیاں ختم ہو گئیں اور لواخ بھی قصہ ء پارینہ ہو گیا ۔

b0deb714 9ed3 4e26 ba03 0797ea1a70deاختر رضا سلیمی

اختر رضا سلیمی نے اس لواخ کو از سر ِ نو نہ صرف روشن کیا بلکہ اس سے وہ کام بھی لیا جو اس سے پہلے لواخ سے کبھی نہ لیا گیا تھا۔ ناول کی کہانی 3 ستمبر 1857 کے اس واقعے کے گرد گھومتی ہے جب مری کی فوجی چھاؤنی پر مقامی قبائل قبضے میں ناکام ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں کئی حریت پسندوں کو توپوں سے اڑا دیا جاتا ہے ۔ ان میں سے ایک کردار کی آخری خواہش یہ تھی کہ اس کا سینہ توپ کے دہانے کی طرف ہونا چاہیے ۔ افسوس کہ انگریز اس شہید کی یہ آخری خواہش بھی نہ پوری کر سکے ۔ لواخ ایسے ہی عظیم کرداروں کی عملی جدوجہد کی کہانی ہے ۔

ایک تبصرہ چھوڑ دو