سخن ہائے نا گفتنی

میجر (ر) عمران علی خان کھرل

حضرت غالب نے فرمایا تھا کہ ان کے تمام ارمان نہیں نکلے۔ ویسے حیرت ہے ان کے مزاج کی ہر چیز ان کو میسر تھی۔ شراب ناب بھی تھی، ایک ڈومنی بھی رکھ رکھی تھی۔ قرب شاہی بھی میسر تھا، پھر نجانے کون سے ارمان تھے جو پورے نہیں ہوئے۔

حضرت غالب کی خواہشات کے بارے میں سوچتے ہوئے اسپ خیال اپنی خواہشات کی طرف چلا گیا۔عہد طفلی سے لے کر اب جب کہ کفن و کافور کی خوشبو روزانہ ناک سے ٹکراتی ہے۔ سوچتا ہوں، کہ کتنی خواہشات تھیں جو سفر زیست کی خاک میں پنہاں ہو گئیں۔

خواہشات کو ضبط تحریر میں لاتے ہوئے سب سے پہلے یہ خیال آیا کہ ہماری زیادہ تر خواہشات تو ناگفتنی ہیں اور اگر ان کو بیان کر دیا تو ہمیں سنت حضرت عیسیٰ کی پیروی میں اٹھا لیا جائے گا۔ اس لیے ان کے بیان سے ہم باز رہیں تو بہتر ہے کیونکہ ہماری نازک مزاجی اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ویسے میں نے اپنی بزدلی کو نازک مزاجی کا لبادہ اس لیے پہنایا ہے کہ کہیں میری راجپوتی پر کوئی آنچ نہ آ جائے۔

جب ہم طالب علم تھے تو مدرسے صرف باپ کے خوف سے جاتے تھے، اور اساتذہ کے ڈر سے مدرسے سے بھاگ جاتے تھے۔ ہمارے زمانے کے والد بھی خاصے "دہشت گرد” قسم کے ہوتے تھے اور وہ اپنے دہشت گرد ہونے کا احساس بھی اکثر کوئی نہ کوئی دھماکہ کر کے دلاتے رہتے تھے۔ لیکن اب تو یہ عالم ہے کہ میرا بیٹا میرے پیٹ پر ہاتھ مار کر کہتا ہے برو…. یور آر گیننگ ویٹ…. خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ ویسے شروع سے ہی ہم خود کو طالب علم نہیں مطلوب علم سمجھتے تھے۔ اس لیے کہ کتاب کو دیکھتے ہی صدیوں کی بے خوابی آنکھوں میں اتر آتی تھی۔ دوسرے صفحے تک پہنچتے پہنچتے نیند کی دیوی کی آغوش میں جا چکے ہوتے تھے، لیکن یہ کیفیت زیادہ دیر نہیں چلتی تھی۔ والد مرحوم کی آواز خوابوں کے جزیرے پر طوفان نوح کی مانند آتی اور سب کچھ بہا کر لے جاتی اور ہم ریزہ ریزہ خوابوں کی لاش اٹھائے منہ دھو کر دوبارہ پڑھنے بیٹھ جاتے،
لیکن اب یہ عالم ہے کہ کوئی اچھی کتاب اگر ہاتھ لگ جائے تو شب کے ڈھلنے کا احساس کتاب مکمل کرنے کے بعد یا موذن کی اذان سے ہوتا ہے۔

یادش بخیر ، ایک زمانہ تھا کہ بازار سے گزرتے ہوئے اگر کسی کا دامن حریر ہمارے دامن سے ٹکرا جاتا تو خون رگ جاں میں تلاطم برپا ہو جاتا۔ اور یہ احساس پہروں قائم رہتا۔ اور اب یہ حالت ہے کہ خانم خانہ اگر کسی تقریب میں جانے کے لیے لپ اسٹک لگا لے تو بقول منتظر وزرات عظمیٰ کانپیں ٹانگ جاتی ہیں۔

کبھی وہ وقت تھا کہ صبح بیگم کی شرماتی، لجاتی آواز آتی تھی، اٹھ جائیے، غسل کا پانی رکھوا چھوڑا ہے، اور اب جاڑے کی صبح کو بھی ان کی دھماکہ خیز آواز آتی ہے، کب تک پڑے رہو گے ، وضوکا پانی ٹھنڈا ہو جائے گا۔
موت کو جن کے تصور سے پسینہ آ ئے
زیست کے دوش پہ وہ بار گراں دیکھے ہیں

ہم جیسے مڈل کلاس کے لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے عہد شباب میں کشمکش حصول آب دانہ میں اس قدر مقید ہوتے ہیں کہ اگر صبح بنارس اور شام اودھ سامنے آ جائیں تو ہم ان کو چشم بینا کی بجائے چشم شکم سے دیکھتے ہیں۔
عمر عزیز کے ماہ و سال گزرتے جاتے ہیں اور ہم پوری طاقت لگا کر بیگم اور بچوں کی خواہشات کو پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں اور پھر وہ وقت آ جاتا ہے کہ ہمارے پاس سب کچھ موجود ہوتا ہے لیکن اس کو استعمال کرنے کے لیے زندگی بہت قلیل باقی ہوتی ہے۔ جب ایک پاﺅں قبر میں اور دوسرا کیلے کے چھلکے پر ہو تو ایسے میں کیسا جینا۔

موت اپنی نہ عمل اپنا نہ جینا اپنا
کھو گیا شورش گیتی میں قرینہ اپنا

ایک تبصرہ چھوڑ دو