40 ہزار ایکڑ پرزیتون کے پانچ ملین درخت لگائے جا چکے
اس سال بارہ لاکھ پودے تیار کیے گئے اگلے سال کیلیے بائیس لاکھ ہدف ہے۔ ڈاکٹر طارق نیشنل پروجیکٹ ڈائریکٹرپاکستان زیتون پروجیکٹ

انٹرویو: راشد عباسی (دوسرا حصہ)
ڈاکٹر محمد طارق معروف زرعی سائنس دان ہیں۔ انھوں نے بی ایس سی (آنرز)، ایم ایس سی (آنرز) اور ڈاکٹریٹ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، پاکستان سے کیا۔ 1988 میں محکمہ زراعت، حکومت پنجاب سے اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے ڈاکٹر محمد طارق نے زیادہ پیداوار کی حامل، بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھنے والی اور ماحول دوست فصلوں کے حوالے سے تاریخی کام کیا ہے۔
ان کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ وہ زمینیں جہاں اہم فصلیں کاشت نہیں جاتیں اور ان سے کوئی معاشی فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا تھا ان میں زیتون کی شجر کاری اور قلم کاری کر کے ایک معاشی انقلاب کی راہ ہموار کر دی ہے۔ زیتون کا درخت بہت سخت جان ہوتا ہے۔ اسے بہت کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے ہر جگہ حتی کہ پہاڑی علاقوں میں بھی لگایا جا سکتا اور طویل العمری میں کوئی اور درخت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
پاکستان زیتون پروجیکٹ ایک انقلابی منصوبہ ہے۔ اس کے فروغ اور کامیابی سے جہاں ملکی معیشت کو درآمدات کی مد میں کروڑوں ڈالر کی بچت ہو گی وہیں زیتون کی مختلف مصنوعات برآمد کر کے کثیر زر مبادلہ کمانے کے بھی مواقع پیدا ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ زیتون کی شجر کاری عام ہونے سے یہ مصنوعات عام آدمی کی رسائی میں آ جائیں گی جس سے صحت عامہ کے کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ اس بابرکت پودے کی قسم تو خود خالق کائنات نے اٹھائی ہے اس لیے اس حوالے سے جتنی تحقیقات کی جائیں کم ہیں۔ لیکن اب تک کی تحقیقات کے مطابق زیتون ماحول دوستی میں اپنی مثال آپ ہے۔ زمین بردگی و ریختگی اور پیداواری انحطاط کا بہترین حل زیتون کی شجر کاری میں ہے۔
ڈاکٹر محمد طارق کا سب سے انقلابی قدم یہ ہے کہ انھوں نے اس پروجیکٹ کو کسی ایک علاقے میں محدود کرنے کے بجائے پورے پاکستان میں پھیلا دیا ہے تاکہ ہر علاقے کے لوگ اس انقلابی معاشی موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اس امر کو ترجیح بنایا ہے کہ اس پروجیکٹ سے دیہی آبادی کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جائے تاکہ دیہی علاقوں میں مقامی روزگار کو فروغ دے کر بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو۔
سوال : اس وقت تک ملک بھر میں پاکستان قومی زیتون منصوبے کے تحت کتنا کام ہوا ہے؟
جواب : بنیادی طور کسی بھی منصوبے کے ابتدائی مراحل بہت کٹھن، صبر آزما اور وقت طلب ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس مرحلے پر سارا زور تفکر و تدبر، تحقیق اور منصوبہ بندی پر ہوتا ہے اس لیے کسی کے سامنے کوئی عملی شکل موجود نہیں ہوتی۔ پھر بہ تدریج خواب تعبیر آشنا ہونا شروع ہوتے ہیں اور عملی صورت میں منصوبے کے خدوخال سامنے آتے ہیں۔ ہمارے منصوبے کے آغاز میں ہمارے سامنے چیلنج یہ تھا کہ زیتون کی سینکڑوں قسموں میں سے صرف ان قسموں کا انتخاب کیسے کیا جائے جو ہماری آب و ہوا، ماحول اور موسم سے مطابقت رکھتی ہوں۔ پھر یہی نہیں بلکہ ان میں سے بھی ان قسموں کا انتخاب کیا جائے جن سے زیادہ اور معیاری پھل حاصل ہو سکے۔ ان سارے مراحل پر دن رات کام کر کے ہم الحمد للہ یہ ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت زیتون میگا منصوبے کے تحت پاکستان میں چالیس ہزار ایکڑ رقبے پر پانچ ملین درخت لگائے جا چکے ہیں۔ سب سے زیادہ پنجاب میں چودہ ہزار ایکڑ پر انیس لاکھ پودے لگائے گئے۔ اس کے بعد خیبر پختونخوا کا نمبر آتا ہے۔ پھر بلوچستان ہے جہاں دس ہزار ایکڑ رقبے پر زیتون کی کاشت کی جا چکی ہے۔ نیز آزادکشمیر میں بھی اس منصوبے کے تحت زیتون کی شجر کاری کامیابی سے جاری ہے۔
بیروٹ میں زیتون کی کامیاب پیوند کاری
سوال : کیا آپ اپنی رفتار کار سے مطمئن ہیں؟
جواب : کسی بھی منصوبے میں بہتری کے امکانات بہرحال ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ ہمارے اس میگا منصوبے کی رفتار کار مزید تیز ہو سکتی ہے اگر کسانوں اور عوام میں زیتون منصوبے کی اہمیت اجاگر ہو جائے۔ شعبہ تعلیم نصاب میں مضامین شامل کر دے۔ اس طرح اساتذہ اور طلبا اس انقلاب کا حصہ بن جائیں گے۔ جامعات اپنا کردار ادا کریں۔ میڈیا آگہی عام کرنے میں اپنا کردار ادا کرے کہ زیتون منصوبہ معاشی، ماحولیاتی اور صحت و فلاح عامہ کے حوالے سے کیسے ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ ہماری ترجیح یہ ہے کہ دوسری فصلوں کی اچھی پیداوار دینے والی زمینوں کے بجائے زیتون کی کاشت ایسی زمینوں میں کی جائے جو غیر پیداواری یا بنجر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارا مشن یہ بھی ہے کہ ہم ایسے علاقوں کو اس منصوبے کی مدد سے ترقی دیں جہاں وسیلہ ہائے روزگار معدوم ہیں۔ نیز دیہی علاقوں کی خواتین کو بھی معاشی خود مختاری اور خوشحالی کے حصول میں اس منصوبے کے تحت موقع دیا جا رہا ہے۔
پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان، کشمیر کے بعد اب سندھ میں بھی زیتون کی کاشت شروع ہو چکی ہے۔ اگرچہ اس کو دیگر علاقوں کے مقابلے میں کامیاب بنانا آسان نہیں لیکن اس سلسلے کا آغاز بھی ایک انقلابی قدم ہے۔ اور اس بات کا غماز ہے کہ ہمارا سفر بہتری کی سمت جاری ہے۔
خوش قسمتی سے اب پاکستان میں زیتون کے پودوں کی فعال نرسریاں بہ طریق احسن کام کر رہی ہیں۔ اس سال بارہ لاکھ پودے تیار کیے گئے جب کہ اگلے سال کے لیے ہدف بائیس لاکھ رکھا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سال میں دو بار قلم کاری بھی ملین کی تعداد میں ہو رہی ہے۔اگر مذکورہ بالا سارے حقائق کو پیش نظر رکھیں تو اس منصوبے کی رفتار کار آپ کو بھی کئی دیگر حکومتی منصوبوں کے مقابلے میں بہتر لگے گی۔
سوال : یہ میگا منصوبہ تقریبا ایک عشرہ قبل شروع ہوا۔ اس دوران زیتون کے حوالے سے انداز فکر میں کیا تبدیلی آئی؟
جواب : 2014 میں جب اس منصوبے کا آغاز ہوا تو متعلقہ وزارت، محکمے اور کچھ افسران کے علاوہ بیوروکریسی اور افسران کو اس منصوبے کی اہمیت کے بارے میں سمجھانے میں خاصی مشکل پیش آتی تھی۔ جب ہم بریفنگ دیتے تھے کہ زیتون ایک متبرک اور معجزاتی درخت ہے۔ یہ ماحول دوست ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اس عہد میں یہ بہت سے مسائل کا موزوں ترین حل ہے۔ اسے اپنی بقا کے لیے مقابلتا پانی کی کم مقدار درکار ہوتی ہے اور بیماریوں کے خطرات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ طویل العمری میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اس کا پھل تو ہے ہے ہی قیمتی لیکن اس کے علاوہ بھی اس کے ذریعے بہت سی مصنوعات تیار ہو سکتی ہیں۔ اسے ادویہ سازی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایندھن کی ضروریات پوری کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے جس سے جنگلات کی تباہی کو روکنے میں مدد ملے گی۔ زیتون کے تیل کی پیداوار سے ہم بہت سا زرمبادلہ بچا سکتے ہیں۔ نیز معیاری تیل کی دستیابی سے صحت عامہ کے مسائل حل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ نیز زیتون کی مصنوعات برآمد کر کے ہم کثیر زر مبادلہ بھی کما سکتے ہیں۔ ہم مشاہدہ کرتے تھے کہ ارباب اختیار کے چہروں پر بے یقینی کا تاثر عام ہوتا تھا۔
لیکن آج الحمد لللہ ارباب اختیار کے انداز فکر میں بھی بہت مثبت تبدیلی آئی ہے۔ آج ہماری درجن کے قریب نرسریاں ہیں۔ جو منظور شدہ اقسام کے پودے وافر تعداد میں مہیا کر رہی ہیں۔ اگلے سال ان شاء اللہ دو ملین سے زیادہ پودے لگانے کا ہدف ہے۔ گزشتہ برس تقریبا سو ٹن تیل کی پیداوار ہوئی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ انداز فکر میں واضح مثبت تبدیلی آئی ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ کسان اور عوام کے اس منصوبے کے ساتھ انسلاک کے لیے پڑھے لکھے لوگ اپنا کردار ادا کریں اور اس سلسلے میں شعور و آگہی عام کرنے میں ہماری مدد کریں۔
سوال : کیا کوئی تربیتی سرگرمیاں بھی آپ کے منصوبے کا حصہ ہیں؟
جواب : بہت ضروری سوال پوچھا ہے آپ نے۔ دراصل ہمہ گیر تربیت کے بغیر اس میگا منصوبے کے اہداف کا حصول کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے۔ ہمارے منصوبے میں تربیتی سرگرمیاں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں اور ان کے لیے خصوصی بندوبست کیا گیا ہے۔ ہمارے تربیتی اجلاسوں اور ورکشاپوں کا ایک سالانہ جدول بنتا ہے جو سارے کسانوں اور افسران کو مہیا کر دیا جاتا ہے۔ اسی جدول کے مطابق ملک کے مختلف علاقوں (اسلام آباد، پشاور، شنکیاری، لوئر دیر، مظفر آباد، کوئٹہ، وغیرہ) میں متعدد اور مختلف النوع تربیتی سیشن منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس میں نئے پودے لگانا، قلم کاری، نرسریوں کے قیام کا طریقہ کار، باغ کی دیکھ بھال، شاخ تراشی، آب پاشی اور زرخیزی کا انتظام، بیماریوں کی آگہی اور پیسٹ کنٹرول، زیتون کے پتوں کی چائے، اور دیگر امور ضروریہ کی تربیت شامل ہے۔ اگر کسی علاقے میں کسی خاص تربیت کے لیے ریسورس پرسن موجود نہ ہو تو ہم اس شعبے کے ماہر کو کسی دوسرے مرکز سے اس سیشن کے انعقاد کے لیے مطلوبہ جگہ بھیج دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی اگر کسی علاقے میں خصوصی طور پر کوئی سیشن یا ورکشاپ منعقد کرنے کی درخواست کی جائے تو ہم اس کا انتظام بھی کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ بیرون ملک سے بھی ( اٹلی، وغیرہ) اس شعبے کے ماہرین پاکستانی زرعی سائنس دانوں کو تربیت دینے آتے ہیں۔ ان کے پاس اس حوالے سے صدیوں کے تجربات محفوظ ہیں۔ انھوں نے کئی حوالوں سے نئے تجربات کیے ہیں جن کے لیے شاید ہمارے ہاں سرمایہ اور انتظامات ممکن ہی نہ ہوتے۔ پھر انھوں نے مختلف آلات، اوزار اور کٹس متعارف کروا دی ہیں۔ اس سے شجر کاری اور قلم کاری کی کامیابی کی شرح بہت بہتر ہو گئی ہے۔ بیماریوں کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی ہے اور سرگرمیاں آسان ہو گئی ہیں۔
نیز ہمارا ایک یوٹیوب چینل بھی ہے جس پر بے شمار ویڈیو رکھ دی گئی ہیں تاکہ وہ لوگ جو بہ وجوہ ورکشاپوں یا اجلاسوں میں نہیں آ سکتے وہ ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہدایات کے مطابق اپنے باغات کی دیکھ بھال کریں۔ (جاری ہے)