” ہماری مسجد "

تحریر : راشد عباسی

منصور کی زندگی کا طویل عرصہ خلیجی ممالک میں گزرا تھا۔ اس نے تاریخ اور ادب میں ڈگریاں حاصل کرنے سے زیادہ علم حاصل کرنے پر توجہ دی تھی۔ سعودی عرب میں قیام کے دوران اہل عرب سے کتاب اللہ کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ وہ جس کمپنی میں ایڈمنسٹریٹر تھا وہاں تقریبا تمام قومیتوں کے لوگ تھے۔ یوں اسے دنیا بھر کے پڑھے لکھے لوگوں سے رفاقت، مکالمے اور دوستی کا موقع میسر آیا۔ ان میں سعودی، مصری، ہندوستانی، سری لنکن، شامی، فلسطینی، لبنانی، فلپائنی، امریکی، برطانوی، ڈچ اور ترک شامل تھے۔

اسے عربی ادب کے تنوع، گہرائی اور تاثیر نے بہت متاثر کیا۔ سعودی عرب کے شعراء سے ان کی شاعری سننے کا ایک الگ ہی لطف ہے۔ اگر آپ کو عربی زبان سے شغف ہے اور آپ تھوڑی بہت بھی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں تو آپ عربی شاعری کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔
پاکستان آ کر منصور کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ زندگی کے راستے میں سپیڈ بریکر بنانے والوں کے ہجوم نے اسے پریشان کر دیا۔ فقط گفتار کے غازی، کردار سے عاری بونے قدآوروں کو کہاں برداشت کر سکتے ہیں۔ وہ بہت دل برداشتہ ہوا۔ سعودی عرب کے اس کے حلقہ احباب میں سے صرف تین لوگوں نے پاکستان کی طرف مراجعت کی تھی۔ باقی احباب یورپ، کینیڈا، امریکہ اور آسٹریلیا کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ اس نے نہایت دکھ کے ساتھ سوچا کہ شاید اس کا مراجعت کا فیصلہ غلط تھا لیکن تفکر و تدبر سے اس نے خود کو قائل کر لیا کہ اس حال میں جی کر دکھانا مردانگی ہے جس حال میں جینا دشوار تر ہو۔ وہ اکثر استاد محترم ذکاء صدیقی کا یہ شعر گنگناتا رہتا ۔۔۔
جہاں پہ ڈرتی ہے دنیا قدم بھی دھرتے ہوئے
ہم اس گلی سے گزرتے ہیں رقص کرتے ہوئے

اس نے میدان کارزار میں اترنے کا کٹھن فیصلہ کر لیا۔ ہر قدم پر جھوٹ، بے ایمانی اور منافقت کا بازار گرم ہو تو اہل صدق و صفا کے لیے پل پل عذاب ہو جاتا ہے۔ فرقہ پرستی اور جذباتیت جن معاشروں کو گھن کی طرح چاٹ جائے وہاں تحمل اور برداشت کا وجود ختم ہونا قدرتی امر ہے۔ علم، تحقیق اور تخلیقیت سے عاری لوک چلتے پھرتے سائے بن جاتے ہیں۔

اس ماحول میں منصور نے راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے انا الحق کی صدا بلند کرنے کا فیصلہ کیا۔ نوجوانوں کو علم و ہنر سے آراستہ کرنے کے لیے ایک تنظیم بنائی۔ مادری زبانوں کی بقا اور فروغ کے لیے اپنا وقت اور صلاحیتیں ہی نہیں سرمایہ بھی وقف کر دیا۔ فکر فروغ اقبال کے لیے عملی کام شروع کر دیا۔ سکول، کالج، یونیورسٹیاں اس کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔

کل ایک اجلاس سے واپسی پر مغرب کا وقت ہو گیا۔ منصور ایک مسجد میں نماز مغرب ادا کرنے کے لیے رک گیا۔ امام صاحب کی قرآت بہت پر تاثیر تھی لیکن انھوں نے مختصر سی سورت کا انتخاب کر کے محرومی سے ہم کنار کیا۔ سلام پھیرتے ہی وہ غصے سے بھرے چہرے کے ساتھ مقتدیوں سے مخاطب ہوئے۔۔۔۔

"یہ آمین بالجہر کس۔۔۔۔۔ نے کہی؟”۔

ایک مسکین سے شخص نے اس "جرم” کا اعتراف کر لیا۔

امام صاحب نے اسی غصے بھرے لہجے میں ارشاد فرمایا۔۔۔۔۔۔
"جس جس کو آمین بالجہر کہنے کا شوق ہو وہ آئندہ *ہماری مسجد* میں داخل نہ ہو”۔

square 1 1 1673715734777 1

ایک تبصرہ چھوڑ دو