خِطۂِ پوٹھوہار کی نِگہبان ۔۔ پہاڑی زُبان
تحریر امجد بٹ

خِطۂِ پوٹھوہار کی نِگہبان ۔۔ پہاڑی زُبان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر :- امجد بٹ۔ مری
زُبان کِسی بھی قوم کی تاریخ ،تہذ یب، سائنسی و دینی علوم، ادبِ عالیہ اور ثقافت کی محافظ ہوتی ہے ۔ جس قوم کی زبان کی کوئی شناخت یا حیثیت نہیں ہوتی بین الاقوامی اور قومی سطح پر اس قوم کی کوئی حیثیت یا مقام نہیں ہوتا ۔ لہٰذا کمزور اور بے حیثیت زبان والی قوم کو بڑی زبانوں کی حامل قوموں کے ماتحت یعنی غلامی میں رہ کر جینا پڑتا ہے۔ اُنہی کی عادات اور اطوار اور نظامِ زندگی کو اپنانا پڑتا ہے۔ دنیامیں اُس قوم کو ترقی اور اختیار حاصل ہے جس کی زبان میں سائنسی و دینی عُلوم اور ادبِ عالیہ زیادہ ہوتا ہے۔ دنیا کی زبانوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہر قدرتی زبان شروع میں ایک بولی کی حیثیت سے عام ہوئی۔ جب اس کے بولنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو اس کی روایات و واقعات کو اشعار، ماہیوں اور ٹپّوں کی صورت میں غیر ارادی طور پر محفوظ کر لیا گیا۔ یہ معلومات و روایات سینہ بہ سینہ بزرگوں سے نوجوان نسلوں میں غیر تحریری طور پر منتقل ہوتی رہیں ۔صدیوں کے اس عمل کے بعد اس قوم کے بہی خواہوں نے ان روایات و واقعات کو تحریر کی شکل دینے کی کوشش کی ۔ معروف اور مستعمل رسم الخط کو ذریعہ اظہار بنایا گیا۔ آوازوں نے الفاظ کا جامہ پہنا ۔ حسبِ ضرورت صرف و نحو یعنی گرائمر کے قواعد مرتب کئے جاتے رہے۔ ترقی یافتہ زبانوں سے راہنمائی لی جاتی تھی ۔ اپنی ضرورت اور آسانی کے مطابق لفظوں کی ساخت میں تبدیلیاں بھی کی جاتی رہیں ۔ یہاں تک کہ زبانیں اپنی روایات و واقعات کو الفاظ ، اشعار اور پھر مضامین کی صورت میں محفوظ کرنے کے قابل ہوگئیں اور اعلیٰ تجارت و سیّاحت نے تو ترقی یافتہ اقوام کی زبانوں کے الفاظ کو محکوم اور ترقّی پزیر اقوام کی زبانوں کے قالب میں ڈھال دِیا۔ کِسی قوم کو لسانی پہچان دینے کا عمل اس کی زبان کے حروفِ تہجی اور ان کی آوازیں طے کرنے سے شروع ہو جاتا ہے ۔ گرائمر اور ذخیرہ الفاظ میں ارتقاء اس زبان کے لئے آب حیات کا درجہ رکھتا ہے ۔ زبان ایک منظم قوم کی علامت ہوتی ہے جب کہ بولی (جو زُبان لکھی پڑھی نہ جا سکے ) غیر منظم اور پسماندہ لوگوں کی عکاسی کرتی ہے ۔ میری نظر میں پہاڑی شاعری میں (پاکستان میں) جناب مسعود احمد آکاش ایڈووکیٹ اور نغمات کی گائیکی میں جناب شکیل اعوان کا نام سر فہرست ہے ۔البتہ پوٹھواری اور ہندکو لہجے کے گیتوں کی کیسٹیں بازار میں دستیاب ہیں۔ گُزشتہ برس پوٹھواری زبان میں قُرآنِ حکیم کے ترجمے کی تقریبِ رُونمائی کے بعد جناب یاسر کیانی نے "پوٹھواری گرائمر” کی کتاب (مطبوعہ مئی2005) خاکسار کو تحفتاً عنایت کی ۔ جناب نور الہی عباسی مرحوم ” مؤلف تاریخ مری” وہ واحد شخصیت تھے جنہیں پہاڑی زبان سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔ وہ پہاڑی زبان کے دیوانے تھے لیکن شومئی قسمت کہ وہ لسانیات کے ماہر نہ تھے ۔ وگرنہ وہ اپنے عشق کوعملی جامہ پہنانے کی ضرور کوشش کرتے۔ لیکن جب سے ُ”ظہیر چاچو” نے انفوٹینمنٹ کے ذریعے پہاڑی زُبان کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہے تو موصوف کی کمی پوری ہوتی دِکھائی دیتی ہے۔ پھر جب پروفیسر اشفاق کلیم عباسی نے ماں بولی کی بقا اور فروغ کے لیے قافلہ سالار کے طور پر انجمن فروغ پہاڑی زبان کے پلیٹ فارم سے اشاعتی سرگرمیوں کی سرپرستی شروع کی اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی مترنم پہاڑی شاعری ملک کے طول و عرض تک پہنچی اور ملک کے معروف شعراء و ادباء نے اسے سراہا تو ہمیں پہاڑی شعر و ادب کا مُستقبل محفوظ ہاتھوں میں دِکھائی دینے لگا۔ اشفاق کلیم عباسی کی شاعری میں جناب سلیم شوالوی کی پہاڑی رومانوی شاعری والی وارفتگی، جناب آصف مرزا کے پہاڑی کلام جیسا صوفیانہ و عالمانہ رنگ اور جناب علی احمد قمر کے موسیقیت سے معمور پہاڑی اشعار کی جھلک انار اور انگور کے رس کی طرح ٹپکتی دِکھائی دیتی ہے۔
اب آپ کو پہاڑی شاعری میں ہر رنگ نظر آئے گا، قلب و نظر کی وارداتیں ہوں یا سماجی نا ہمواری کے قِصّے، جنابِ راشد عباسی کا پہاڑی کلام "سُولی ٹنگی لو” آپ کی تشنگی بُجھانے کے لئے دستیاب ہے۔ ماہنامہ روابط، اور "دستک مری” کے بعد پہاڑی نظم و نثر کو اگر کسی نے عبادت اور عِلمی خِدمت سمجھ کر اشاعت کا بِیڑہ اُٹھایا ہے تو وہ راشد عباسی کی شخصیت ہے اور سہ ماہی جریدہ "رنتن” اُن کی قُربانیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ رنتن کا تیسرا شُمارہ "علامہ مُضطر عباسی نمبر” اُن کی اپنے اُستاذ سے عقیدت کا اور علامہ موصوف کی عِلمیّت کا اعتراف ہے۔ عنقریب قارئین اِس شمارے پر تبصرہ ملاحظہ فرمائیں گے۔ پہاڑی لسانیات پر اگر آپ خالص عِلمی گُفتگُو سے محظوظ ہونا چاہتے ہیں تو جنابِ ڈاکٹر عابد عباسی کے لیکچر ہمیں ماہرِ لسانیات کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں گے۔
یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ کسی زبان کے علم و ادب کا فروغ اہل زبان کا محتاج نہیں ہوتا۔ عربی زبان میں قرآن حکیم کے علاوہ اکثر زبانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ اس کی شاہکار اور معرکۃ الآراء تحریریں اہلِ زبان کی لکھی ہوئی نہیں ہیں۔ اسی طرح پہاڑی بولی کو بولی سے زبان بنانے کی شاندار خدمات پہاڑی یا پوٹھوہاری بولنے والوں کے حصے میں نہیں آ سکیں۔ کوئی تین دہائیاں قبل دیگر غیر مُلکیوں کی طرح امریکی ریاست جارجیا کے جناب مائیکل لازر اور ان کی اہلیہ لارنا لازر کو پہاڑی زبان سکھانے کا اتفاق ہوا۔ ہم نہ صرف روزانہ الفاظ کی آوازیں طے کرتے اور گرائمر کے اصول اخذ کرتے بلکہ خِطۂِ پوٹھوہار کے تمام مرکزی علاقوں مری، گوجر خان کہوٹہ، ایوبیہ، ایبٹ آباد، اور آزاد کشمیر کے مختلف مقامات میں جا کر روزانہ کی بنیاد پر 20 الفاظ کے مشترک و مستعمل تلفظ طے کر کے لکھ لیتے تا کہ ایسا ذخیرہ الفاظ مرتب کیا جا سکے جو تمام مذکورہ علاقوں میں پڑھا، بولا اور سمجھا جاتا ہو اور سامنے آنے والی تحریر نہ صرف ان علاقوں کے لوگوں کو سمجھ آئے بلکہ یہاں کے باسیوں کو روابط ، محبت اور دوستی کی مالا میں پرو دے۔ اس کے لئے مختلف تصاویر کو سامنے رکھ کر مذکورہ پہاڑی ذخیرۂِ الفاظ کی بُنیاد پر مختصر سماجی کہانیاں تیّار کی گئیں اور اُنہیں مختلف پہاڑی تلفظ والے دیہاتوں میں جا کر بزرگوں اور معزّز خواتین کو سُنا کر تفہیم کی تصدیق کی گئی۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی وہ کتاب ہے جسے’جارجیا‘ کے مائیکل لازر مع کیسٹ شائع کرنے میں کامیاب ہُوئے۔ انہوں نے خاکسار کے تعاون سے نہ صرف یہ کتاب مرتب کی ہے (جو کہ ان کے سیکھے گئے اسباق پر مشتمل ہے) بلکہ ان کا اندازہ ہے کہ آئندہ سو سالوں میں خطۂِ پوٹھوہار میں پہاڑی کو ایک تعلیمی اور عِلمی زبان کا درجہ حاصل ہو جائے گا۔ اغلب یقین یہی ہے کہ جس طرح اُردُو زُبان کی تاریخ میں فورٹ ولیم کالج اور اس کے پرنسپل ڈاکٹر گلکرائسٹ کو اُردُو کے شاہسوار کا درجہ حاصل ہے اسی طرح پہاڑی کی تاریخ میں بھی مائیکل لازر کا نام سر فہرست ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ اُردُو کسی ایک قوم کی زبان نہیں تھی بلکہ مختلف قوموں کے فوجیوں کے روابط سے جنم لینے والی ایک رابطے کی بولی تھی، جسے بعد میں شعوری طور پر گرائمر مرتب کر کے ایک زُبان کا درجہ دِلوایا گیا۔ ہم یہ بات بھی بخُوبی جانتے ہیں کہ فورٹ ولیم کالج کی مقتدر شخصیات اُردُو کی ہمدرد نہیں تھیں بلکہ وہ تو مسلمانانِ برِاعظم پاک و ہند کا دوسرے مسلمان ملکوں سے سیاسی، عسکری اور ثقافتی رابطہ کاٹنے کے لئے ہمیں عربی اور فارسی سے دُور کرنا چاہتے تھے اور اِس میں وہ کامیاب بھی ہوئے بلکہ یوں کہا جائے کہ اُس وقت کے مُسلمان جاگیردار، ماہرینِ تعلیم اور معروف سیاست دان شعوری اور لا شعوری طور پر انگریزوں کے آلۂِ کار کے طور پر اِستعمال ہُوئے، اور انگریزی زبان کی غُلامی کا طوق پُوری قوم کے گلے میں ڈال دِیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد وطنِ عزیز کی مقتدر قوتوں نے نہ صرف اُردُو کو اپنے علاقائی اور لِسانی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی بلکہ ان کے ایسے جانبدار رویّوں سے اُردُو کی مخالفت اور نفرت کے جذبات ابھرنے کا بھی موقع ملا۔ اُردُو کی یہ ساری تاریخ پہاڑی بولی کے بولی سے زبان تک کے سفر میں مشعل راہ ثابت ہو سکتی ہے ۔ یہ درست ہے کہ پہاڑی کا اُردُو سے موازنہ نہیں ہوسکتا لیکن اگر خِطۂِ پوٹھوہار پر بسنے والی ایک کثیر آبادی کو مُشترک صوتی آہنگ والی تحریری زبان کے زیور سے آراستہ کر دیا جائے تو ان کے فکر وعمل میں اشتراک مزید مُستحکم ہو سکتا ہے ۔
اِنسان اُسی زبان میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ یا علم حاصل کر سکتا ہے جس میں وہ سوچتا ہے (اور خواب دیکھتا ہے)۔ سوا دو ہزار سال تک کی مردہ زبان عِبرانی کو قومی جذبات رکھنے والے لِتھوانیا کے ایک 22 سالہ نوجوان ڈاکٹر لازار بِن یہودہ اور اُس کی اہلیہ سمیت مُخلص کارکنوں نے چند سال میں زندہ زبان کی صف میں لا کر کھڑا کر دیا تھا۔ لازار بِن یہودہ نے اپنی بیوی سے یہ عہد کیا کہ جب یہ دونوں عبرانی کا کوئی لفظ سیکھ لیں گے تو اپنی گُفتگُو میں وہی لفظ استعمال کریں گے اور یوں رفتہ رفتہ اُنہوں نے گھریلو زندگی میں عبرانی بولنا شُروع کر دی۔ 1882ء میں ان کے ہاں بیٹا پیدا ہُوا، جِس کا نام ” اینامار "تھا یہ دُنیا میں سوا دو ہزار سال بعد پہلا بچہ تھا جِس کی مادری زبان عبرانی تھی۔ آج عبرانی کی جدید شکل کو اسرائیل میں "یِدِش” کہا جاتا ہے ۔
1880ء میں عبرانی زبان کوئی نہیں جانتا تھا لیکن آج ایک سو بیالیس سالوں بعد اسرائیل کا سارا کاروبار اور ہرقِسم کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے لئے یہ زبان موزُوں اور مناسب خیال کی جانے لگی ہے۔ اگر خطۂِ پوٹھوہار سے کم آبادی والے ملک مکمل زبان کے حامل ہو سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ ہمیں قدرت کا یہ لسانی قانون یاد رکھنا پڑے گا کہ جب بھی کچھ قومیں تجارتی عسکری، سیاسی تبلیغی یا توسیع پسندانہ عزائم کوفروغ دیتی ہیں تو ان کو روابط کے لئے ایک مشترک زبان کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ برِعظیم میں اُردُو انہی ضرورتوں کا نتیجہ تھی ۔
دُنیا کی سات ہزار چھ سو چونسٹھ زُبانوں میں سے اِس وقت ساڑھے تین ہزار زندہ زُبانیں اور نو ہزار بولیاں استعمال ہو رہی ہیں۔
ہندوستان کی 250 اور پاکستان کی 75 زبانوں کی موجودگی میں اُردُو نے ہی مشترک رابطے کی زبان کی ضرورت کو پورا کیا ہے۔ انگریزی مقتدر قوتوں کی زُبان ہونے کے باوجود یہاں کی ایک فیصد عوام کی زبان نہیں بن سکی۔ یہ بات تو آج کا عام طالب علم بھی جان گیا ہے کہ وہ زبان ہمارے لئے شیریں، دلپذیر اور سب سے زیادہ قابل فہم زبان ہے جو ہم اپنی ماں کی گود میں سیکھتے ہیں۔ جو لوگ مقامی سطح پر پہاڑی اور قومی سطح پر اُردُو بولتے ہوئے کتراتے ہیں وہ دراصل اِس احساسِ کمتری کا شکار ہیں جو ہر غلام اور پسماندہ قوم میں پائی جاتی ہے۔ ورنہ اگر پہاڑی زبان کا مقابلہ دنیا کی مشکل زبانوں روسی ، جاپانی ، جرمن وغیرہ سے کیا جائے تو پہاڑی زبان انتہائی دلکش اور شیریں محسوس ہوتی ہے۔
پہاڑی زبان میں پہاڑی ادب کا پہلا نثر پارہ "موتُو نیں نظارے”( موت کے نظارے) ” ماہنامہ روابط” میں چھپنے پر اہل زبان اور پہاڑی سے پیار کرنے والوں نے اصرار کیا کہ مدیر اعلیٰ یہ سلسلہ جاری رکھیں لیکن ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پہاڑی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ ایک نومولود کی طرح گھُٹنوں گھُٹنوں چلنا سیکھ رہی ہے لہٰذا پڑھنے والوں کو کچھ محنت تو کرنا ہوگی ۔ آہستہ آہستہ پڑھنے کی عادت ہو جائے گی اور پھر لوگوں کا یہ سوال کہ پہاڑی پڑھنا مشکل ہے قصہ پارینہ بن جاۓ گا۔
پنجابی زبان ہزاروں سالہ تاریخ کی حامل ہے۔ اس میں مذہبی ، تاریخی اور لِسانی کتب کا منظوم و منثور ذخیرہ موجود ہے۔ لیکن اہل علم کی مادری زبان ہونے کے باوجود پنجابیوں کی اکثریت پنجابی پڑھنا نہیں جانتی۔ اب پنجابی سے لوگوں کی رغبت بڑھ رہی ہے جو ایک روز اِسے پنجاب کی تعلیمی زبان بنائے گی۔ افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایک پسماندہ قوم پی ایچ ڈی اور ایم بی بی ایس پشتو اور فارسی میں کرتی ہے۔ یہی چیز اسے زیادہ دیر غلام نہیں رہنے دیتی ۔ یہ سب مثالیں پہاڑی زبان کے لئے مشعل راہ ثابت ہوسکتی ہیں ۔ ہماری کوشش ہوگی کہ پہاڑی کی ہر تحریر میں مشکل الفاظ کے اُردُو معانی اور گرائمر کے کچھ اصول وضع کر دیے جائیں تا کہ بولی کو زبان بنانے کے عمل میں قارئین تخلیق کاروں کے شانہ بشانہ چلیں ۔
ہر زبان کے لئے الگ رسم الخط بنانا زبان کو مشکل بنانے کے مترادف ہے ۔ دنیا کی 70 فیصد زبانیں رومن رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں، جِسے ہم اپنی کم عِلمی کی وجہ سے انگریزی رِسم الخط سمجھتے اور سمجھاتے آ رہے ہیں ۔ یہ انگریزی زُبان کا مارا ہُوا شب خُون ، والدین اور اساتذہ کی لا پرواہی ہے کہ ہم اپنے رِسم الخط، ہِندسوں یعنی اعداد کی پہچان سے غافل ہو گئے ہیں۔ مقابلے کے امتحانات بانوے فیصد اور پنجاب یونیورسٹی کے امتحانات میں تہتّر فیصد اُمیدوار انگریزی میں ناکام ہونے کی خبریں پُرانی نہیں ہیں۔ انگریزی کی وجہ سے کوئی سائنسدان کوئی دریافت پاکستان کا اعزاز نہیں بن رہی۔
دُنیا کی دس ترقی یافتہ اقوام کا دفتری اور تعلیمی نظام اپنی قومی زبان میں جب کہ ہمارے جیسی پسماندہ اور غلام اقوام آقاؤں کی زبانوں میں جان کھپا رہی ہیں۔
ہمارے ہاں چونکہ زیادہ تر عربی یا فارسی رسم الخط مروّج ہے اور ہمارے زیادہ لوگ اسی رسم الخط کے باعث پہاڑی آسانی سے پڑھ سکیں گے ۔ جن لوگوں کی مادری زبان پہاڑی یا پوٹھو ہاری ہے میری ان سے گزارش ہے کہ اگر ہم اپنی ماں بولی کو خود زبان بنانے کے لئے کمر باندھ لیں تو ہم پھر کِسی گلکرائسٹ یا مائیکل لازر کے محتاج نہیں رہیں گے۔ لیکن اگر ہم پہاڑی اور اُردُو کا دائرہ کار پُوری دُنیا میں آباد اولادِ آدم تک پھیلانا چاہتے ہیں تو ہمیں رومن رِسم الخط سے مدد لے کر پہاڑی اور اُردُو کی مخصوص آوازوں کے لئے ایسے حروف وضع کرنا ہوں گے جو پُوری دُنیا میں پہاڑی ، اُردُو اور تمام پاکستانی زبانوں کے پڑھنے میں مددگار ثابت ہو سکیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے پُوری دُنیا کے مُسلمان عربی جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں لیکن قُرآن پاک ناظرہ قریباً ہر کوئی پڑھ سکتا ہے۔ یوں ہمارا اُردُو ، پہاڑی اور پاکستانی زبانوں کے لئے عالمی رِسم الخط مُرتب کرنے کا قدم دُنیا بھر کی قوموں کو پاکستانی زبانوں کے قریب لے آئے گا۔ لیکن ہر پاکستانی پر یہ پابندی ہونی چاہیے کہ اُردُو اور پاکستانی زبانوں میں موجود منظوم و منثور علوم کی حفاظت اور فروغ کے لئے مُلک میں ہر سطح پر صرف اور صِرف *اُردُو* یعنی عربی رِسم الخط ہی اِستعمال کیا جائے۔
آخری بات لکھتے ہُوئے میرا سر فخر سے بُلند ہو رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ دہائیوں اور صدیوں بعد جب پہاڑی ادب کی وراثت کا معاملہ طے ہو گا، اُردُو ادب میں ولی دکنی اور امیر خُسرو کی طرح پہاڑی ادب میں ملکۂِ کوہسار کے جِن” اہلِ کتاب و صاحبِِ کتاب کا ذِکر آئے گا اُن میں "اساں نے نبی پاک اور” (سیرت النبی)، دیوانِ آکاش”، "نویں سویل” اور "سُولی ٹنگی لو”(شاعری) کے تخلیق کاروں جناب محبت حسین اعوان، سردار مسعود آکاش، جناب اشفاق کلیم اور جناب راشد عباسی کا نام سرِ فہرست ہو گا۔
نہیں گُونگا کہ جو ہے قُوّتِ گویائی سے عاری
وہی ہے بے زُباں یارو نہیں جِس کی زُباں اپنی
(انور عباسی ۔ مری)