✨ نکی عید ✨

تحریر : ملک ناصر داؤد

✨ نکی عید ✨ 

images 42

ہندکو زبان میں عیدالفطر کو نکی عید اور عید الاضحی کو بڈی عید کہتے ہیں۔ سب مسلمانوں کو اسلامی سال 1444ھ کی”نکی عید“ کی مبارکباد۔ رمضان کے بابرکت مہینے کے بعد مسلمانان عالم یکم شوال المبارک کو یہ عید مناتے ہیں۔ عید عربی زبان کا لفظ ہے جو عود سے نکلا ہے۔ جس کے معنی لوٹنا پا پلٹنا کے ہیں۔ عید وہ دن ہے جو ڈھیر ساری خوشیوں کے ساتھ بار بار لوٹ کر آتا ہے۔ اس لیے اسے عید کہتے ہیں۔  عید فرحت و مسرت کا استعارہ ہے۔

عید سے پہلے اس کی تیاری شروع ہو جاتی ہیں۔ لوگ دیار غیر سے گھروں کو واپس آ جاتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں روزگار کے لیے گئے مزدور پوری کوشش کرتے ہیں کہ عید پر اپنے اپنے گاؤں لوٹ آئیں۔ ریلوے والے سپیشل ٹرینیں چلاتے ہیں۔ بسوں میں بہت زیادہ رش ہو جاتا ہے۔ عید پر ہر کوئی حسب استطاعت نئے کپڑے پہنتا ہے۔ بالخصوص بچے لازمی رنگ برنگے کپڑے خریدنے ماں باپ یا چچا ماموں کے ساتھ بازاروں کا رخ کرتے ہیں۔ ہزارہ میں شادی شدہ بچیوں کو عید کے موقعہ پر تحفہ”دِنڑ“ بھیجا جاتا ہے، جس میں کپڑے اور کھانے پینے کی اشیاء شامل ہوتی ہیں۔

نکی عید پر یہاں لوگ صبح نماز کے بعد فوت شدگان عزیز و اقرباء کی قبروں پر حاضری دیتے ہیں۔ وہاں تلاوت کی جاتی ہے۔ اگربتیاں جلائی جاتی ہیں۔ پرندوں کے لیے وہاں دالیں یا باجرہ بھی ڈالا جاتا ہے۔ واپسی پر سویاں کھائی جاتی ہیں۔ نکی عید پر سویاں اور اب چاٹ خاص طور پر تیار کی جاتی ہیں۔ عید کی نماز اکثر مقامات پر مساجد میں ادا کی جاتی ہے۔ کہیں کہیں عید گاہوں میں بھی نماز عید کے اجتماعات ہوتے ہیں۔ شہر کی بڑی مسجد یا عید گاہ میں نماز عید کا مقصد لوگوں میں میل جول قائم کرنا ہے۔ دِلوں میں کدورتوں کا خاتمہ اور ماحول میں سے نفرت اور تعصبات کا خاتمہ ہے۔ جہاں لوگ بستے ہیں، اختلافات کا ہونا قدرتی امر ہے۔لیکن ایسے ماحول کے طویل ہونے سے دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ عید کا موقعہ ربّ العزت نے فراہم کر دیا کہ اگر کوئی رنجش پیدا بھی ہو جائے تو خوشی کے اس موقع پر اسے ختم کر کے مسلمان باہم محبت سے رہیں۔ "عید کا دن ہے گلے ہم کو لگا کر ملیے” کے مصداق لوگ ایک دوسرے کو گلے ملتے ہیں تو گلے شکوے دور ہو جاتے ہیں۔ عام زندگی میں بھی کوئی ناراض ہو تو آپ اس سے دور رہیں گے تو فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ دین اسلام نے پانچ وقت نماز، نماز جمعہ اور عیدین کی نماز میں اہل ایمان کو میل جول کا موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ امن و سلامتی کے ساتھ باہمی اتفاق و اتحاد سے خوش رہیں۔

عید پر لوگ اپنے رشتہ داروں کے گھر عید ملنے کے لیے جاتے ہیں۔ بڑے بزرگوں سے معافی مانگی جاتی ہے۔ نئے شادی شدہ لوگ سسرال اور بچے اپنے نانی کے گھر لازمی جاتے ہیں۔ بچوں کو ماموں، چچا اور بڑوں سے عیدی ملنے کی امید ہوتی ہے۔ عورتوں کو کھانے پکانے کی ذمہ داری پوری کرنی ہوتی ہے۔ کئی منگیتر عید پر سسرال سلام کرنے وارد ہو جاتے ہیں، جہاں ان کی خوب آؤ بھگت ہوتی ہے۔ لڑکیوں کو بننے سنورنے اور چوڑیاں پہننے کا شوق پورا کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔

رمضان کے روزوں کے بعد کھانے پینے میں عدم اعتدال کی وجہ سے معدے خراب ہونے کا احتمال رہتا ہے۔ اس لیے ڈاکٹر حضرات اس دن چھٹی نہیں کرتے۔ احتیاط کرتے ہوئے بھی لوگ دو چار لقمے زیادہ کھا لیتے ہیں۔جوان لڑکے گھومنے پھرنے کا پروگرام بنا لیتے ہیں۔ موٹر سائیکل پر خوب چکر لگائے جاتے ہیں۔ گلی کی نکڑ کی دکان ہو یا شہر میں سڑک کنارے خوانچہ فروش بچوں کو خوب لوٹتے ہیں۔ عیدی کے پیسے بچوں کی جیب سے اپنی جیب میں مہارت سے منتقل کرنے کا ہنر یہ لوگ خوب جانتے ہیں۔ سگھڑ مائیں بچوں کی عیدی فورا لے کر اپنے پاس رکھ لیتی ہیں مگر بڑے بچے ان کو پکڑائی نہیں دیتے۔

عید کے حوالے سے اپنے ایک ہندکو قطعہ کے ساتھ اجازت چاہوں گا

چَن دیخیا لوکاں شونقاں نال
کَہرے سال پِچھوں عید آندی اے
کُجھاں دِیاں خُشیاں، کُجھاں دے غم
ہر پھیرے نال ودہاندی اے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ملک ناصر داؤد، حویلیاں کینٹ

Picsart 23 04 24 11 55 34 705

 

images 44 1

ایک تبصرہ چھوڑ دو