یوم آزادی اور قومی زبان
تحریر : شاہد بخاری

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے
یوم آزادی اور قومی زبان
پاکستان قومی زبان تحریک اور مولانا ظفر علی خاں فاؤنڈیشن کے اشتراک سے 16 اگست کو جو تقریب منعقد ہوئی، اس کا عنوان تھا، "یوم آزادی اور قومی زبان”۔
استاد الاساتذہ ڈاکٹر شفیق جالندھری نے کہا کہ صرف 14 اگست ہی نہیں، آزادی کا ایک ایک لمحہ ایثار اور قربانی کا تقاضا کرتا ہے۔ قوموں کی ترقی میں قومی زبان کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ جو لوگ ابھی تک انگریزی سے چمٹے ہوئے ہیں، وہ احساس کمتری کا شکار ہیں۔ اسی لیے وہ اردو کو ہر سطح پر نافذ ہونے نہیں دے رہے۔حصول انصاف میں آ سانی، اردو ہی کی بدولت ممکن ہے۔
پاکستان قومی زبان تحریک کے صدر محمد جمیل بھٹی نے کلمات صدارت میں کہا کہ 14 اگست 1947 کو ہم انگریز بہادر کی غلامی سے تو آزاد ہو گئے لیکن انگریزی زبان کی غلامی سے آزاد نہ ہو سکے ۔ ہمیں حقیقی آزادی تب حاصل ہو گی جب ہر شعبے میں اردو کا نفاذ ہو گا۔
ملک میں وسیع پیمانے پر طلبہ کے سکول چھوڑنے یا آؤٹ آف سکول ہونے کی بڑی وجہ بھی انگریزی بہ طور لازمی مضمون ہے۔ ہمیں جلد از ابتدائی تعلیم قومی زبان اردو میں دینی چاہیے۔ فرمان قائد اعظم، آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں، اردو ہماری قومی زبان ہے، اس لیے تمام سرکاری محکموں و اداروں میں اس کا جلد نفاذ ہونا چاہیے۔
سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب و صدر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے Rule آف لاء کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر جلد عمل درآمد ہونا چاہیے۔
سٹیزنز کونسل آف پاکستان کے صدر ڈاکٹر رانا امیر احمد خاں نے کہا کہ دنیا کی تمام قوموں نے اپنی قومی زبانوں کو اپنا کر ہی ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ پسماندہ برطانیہ نے جب بارہویں صدی میں اپنی زبان کو اپنایا تب ان کا ملک "گریٹ بریٹن” کہلایا۔ اگر وہاں لاطینی مسلط رہتی تو شہرہ آفاق شیکسپیئر ، ورڈز ورتھ، کیٹس، شیلے اور ملٹن جیسے ڈرامہ نگار و شاعر پروان نہ چڑھتے۔ امریکہ پر اگر چینی زبان مسلط کر دی جاتی تو اس کا حشر بھی ہم جیسا ہوتا۔
سماجی رہنما،حکیم نسیم راحت سوھدروی نے بتلایا کہ یوم اقبال کے موقع پر ایوان اقبال میں ہر مقرر کے آنے سے قبل یہ نعرہ لگتا رہا
جب تک سورج چاند رہے گا
علامہ کا بھی نام رہے گا
جب ان کے فرزند ارجمند جناب جسٹس جاوید اقبال کو تقریر کرنے کے لیے بلایا گیا تو انھوں نے فرمایا، "علامہ اقبال کا زیادہ تر کلام تو فارسی میں ہے، جسے انگریزوں نے برصغیر کی سرکاری زبان نہ رہنے دیا۔ یہاں انگلش میڈیم سکولوں کی بھر مار اور انگریزی ذریعہ تعلیم کی وجہ سے، نئی نسل اردو سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ اس لیے یہ نعرہ فی الحال جچ نہیں رہا۔ ہاں البتہ یہاں نفاذ اردو کے بعد ہی ایسا ممکن ہو سکتا ہے کہ میر و غالب کے ساتھ علامہ کا نام بھی زندہ رہے۔ پاکستان کی ترقی کے لیے ہمیں اردو کو فروغ دینا ہوگا۔ یاد رہے کہ قومی ترقی کی بنیاد قومی زبان ہی ہوا کرتی ہے۔”
علی عمران شاہین نے کہا کہ ہمارے سینئرز نے جب نفاذ اردو کے لیے ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی تو وہ گم ہو گئی تھی۔ دوبارہ محنت مشقت کرکے پٹیشن دائر کی گئی، فیصلہ بھی اردو کے حق میں ہو چکا ہے، جس پہ عمل درآمد نہ کرنے والوں پر آرٹیکل 6 لگنا چاہیے۔ جس دن یہاں اردو آگئی، اسلام بھی آ جائے گا۔ اور خوش حالی بھی آ جائے گی۔
ذی شان بیگ نے کہا کہ اردو میڈیم والے ملازمت کے حصول میں اس لیے نا کام رہتے ہیں کہ ان کا انٹرویو انگریزی میں ہوتا ہے۔ مقابلے کے امتحانات اگر اردو میں ہوں تو غریب بھی اعلیٰ عہدوں تک پہنچ سکتے ہیں۔
جب آئین اور سپریم کورٹ کے مطابق قومی زبان اردو ہے تو انگریزی کا دفتری، عدالتی اور تعلیمی استعمال کیا دستور شکنی اور توہین عدالت نہیں ہے؟
بابائے اردو مولوی عبد الحق اور علامہ اقبال کے درمیان خط و کتابت سے واضح ہوتا ہے کہ علامہ اردو کی اہمیت و افادیت کا ادراک رکھتے تھے اور اس کے فروغ کے لیے تجاویز پیش کرتے رہے۔ ایک مکتوب میں علامہ نے تحریر کیا تھا، "میری لسانی عصبیت، دینی عصبیت سے کسی طرح بھی کم نہیں”۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ سی ایس ایس کے امتحان انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی ہونے چاہییں۔
شاہد بخاری
لاہور