
یوسفی کے ’’ چراغ تلے‘‘ تقلیب و تصرف کا اُجالا(قسط نمبر 4)
زر گزشت اور خرگزشت
’ زرگزشت ‘ کے باب میں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ مہاجنی کی رعایت سے یوسفی صاحب پیشہ ورانہ کو’ پیسہ ورانہ‘ ذمہ داری سےبتاتے اور ایک پائی کے پھیر کو’ سطح حساب ‘ پر تیرتی لاش سے تعبیر کرتے ہیں۔
ایک موقعپر جب کرش چندر کی کتاب’ ایک گدھے کی سرگزشت‘ کا ذکر آیا تو یوسفی صاحب نے کتاب کی تحسین کے ساتھ کتاب کے نام سے یہ کہہ کر اتفاق نہیں کیا کہ نام میں ’ جھول ‘ ہے اور استفسار پر ’ خرگزشت‘ نام تجویز کیا ۔
یوسفی کے ہاں تحریف یا تقلیب کے نظائر اس کثرت سے موجود ہیں کہ یہ اپنی جگہ باقاعدہ مطالعے کو موضوع ہے، مگر حیرت انگیزطور پر اس باب میں نشاندہی تو بہتیروں نے کی ے اس کا بالا ستیعاب جائزہ( کم از کم راقم کے مطالعے کی حد تک ) کس نے نہیں لیا۔ ’ سو جو اُس سے نہ ہو سکا، وہ تُو کر ‘ کی مصداق پہلے مرحلے میں مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ’ چراغ تلے‘ میں موجود تحریف ، تقلیب ، تصرف ، تغیر ، تبدیلی اور رعایتی لفظی کی مضامین وار نشاندہی اور جائزہ پیش خدمت ہے۔
پہلا پتھر(مقدمہ):۔
مشتاق احمد یوسف نے ’ چراغ تلے‘ کے مقدمے کو ’’ پہلا پتھر‘‘ سے تعبیر کیا ہے ۔ اس مقام سے شروع ہونے والی تحریف و تقلیب کی ’ سنگباری‘ تا دم قلم برابر جاری رہی ۔
ادب جس کا چرچا لکھتے ہیں:۔
’ اس کتاب مستطاب کے طلوع ہونے سے قبل، ادب کا نقشہ مسدسِ حالی کے عرب جیسا تھا
’ادب ‘ جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا
جہاں سے الگ ایک جزیرہ نما تھا‘
یہ یوسفی کے ہاں سب سے پہلی تقلیب ہے جو یک لفظی تبدیلی کے بعد ’ عرب ‘ کو ’ ادب ‘ بنانے اور اپنے عہد کا ادبی منظر نامہ سجھانے کی صورت میں سامنے آئی ہے۔
وہ قارئین جو ادیبوں اور نقادوں کے مابین جاری مجادلوں کے ساتھ ’ مسدس حالی ‘‘ کے اس جُز سے واقف ہیں ۔ جس میں عہد جاہلیت کے عرب قبائل کے مابین بات بے بات الجھنے کا تذکرہ ہے ، وہ اس تقلیب سے بہتر حظ اٹھا سکتے ہیں۔
چند مضامین و خطوط
اپنے ’ مختصر خاکہ‘ بیان کرتے ہوئے ’ تصانیف ‘ کےضمن میں درج ہے:۔
’ چند تصویر بتاں، چند مضامین و خطوط‘
یوسفی کے بیان کردہ اپنے سراپے کے ساتھ اگر زرگزشت کا درج ذیل اقتباس بھی پیش نظر ہوتو سمجھنا چنداں دشوار نہیں رہتا کہ معاملہ ’ مضامین و خطوط‘ کا کیوں ہے، ’ حسینوں کے خطوط‘ کیوں نہیں:
’ الحمد اللہ بھر ی جوانی میں بھی ہمارا حال اور حلیہ ایسا نہیں رہا کہ کسی خاتون کے ایمان میں خلل واقع ہو‘
بہر حال یہ فنکاری ایک نا معلوم شاعر(4) کے درج ذیل مقبول عام شعر میں تقلیب کے طفیل ہے:۔
چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ سامان نکلا
خندہ مکر رر
اپنی خندہ کاری کے ضمن میں رقمطراز ہیں:۔
’ اس سے بھی غرض نہیں کہ اس خندہ مکرر سے میرےسوا کسی اور کی اصلاح بھی ہوتی ہے یا نہیں‘
یہاں ’ خندہ مکرر‘ در اصل ’ قند مکرر‘ کی تقلیب ہے، فارسی ادب اور اس کی رعایت سے اردو میں بھی ’ قندر مکرر‘ کے لفظی معنی‘ کسی بات کا دوبارہ لطف لینا یا بہت زیادہ شیرینی کے مزے لینا‘ کے ہیں ۔ تا ہم شعراء لب ہائے معشوق کو کنایۃ،قندر مکرر‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
دیکھیں میر حسن دہلوی(1786-1727)کیا کہہ رہے ہیں:۔
بولا اگر تو قند مکرر ہوئے وہ لب
اور چپ رہا تو یہ بھی ہے صورت نبات کی