kohsar adart

یوسفی کے ’’ چراغ تلے‘‘ تقلیب و تصرف کا اُجالا(قسط نمبر 2)

 

یوسفی اور فن یوسفی پر قلم اٹھانے والا جب اگلوں کے کام پر نگاہ ڈالتا ہے تو دل چھوڑ بیٹھتا ہے، قلم ہمت جواب دے جاتی ہے، قلم گوید کہ من شاہجہانم، کا دعویدار پکار اٹھتا ہے:
ما ترك الأول ُللآخر۔۔۔۔ یعنی ، اگلوں نے پچھلوں کے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔
اس سب کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ ’ ما از پے سنائی وعطار آمدیم‘ کے مصداق ہر آنے والے نے اپنے پیشروئوں کے نقوش پا کو رہنماء بنا یا ۔اُن کے قدم سے قدم ملایا، یوں اُن کے کام کو آگے بڑھایا ہے۔ لہٰذا جس نے بعد والوں کے لیے بظاہر کچھ نہیں چھوڑا ہوتا، کبھی وہ بھی چُوک جاتا ہے ، کوئی اہم نکتہ اُس سے بھی چُھوٹ جاتا ہے ،یہی سبب ہے کہ تحقیق کے باب میں ہمیشہ ترمیم واضافے کی گنجائش رہتی ہے۔ ہمت ہار بیٹھنے والا جب ان کے حقوق کو پاتا ہے تو بے ساختہ نوک زبان پر آتا ہے:۔
كم ترك الأول للآخر۔۔۔۔۔ یعنی ، اگلے بہت کچھ پچھلوں کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔
خوش اسلوبی کو جتنے نام دیے جاسکتے ہیں، وہ سب کلام یوسفی پر صادق آتے ہیں۔ ان کے قلم معجز رقم کی دسیوں جہات ہیں اور ہر جہت تہ داری اور پہلوداری سے آراستہ ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ مشتاق احمد یوسفی کردار کی نفسیات کے مطابق اس سے بات کہلوانے کا ہنر جانتے ہیں۔ اس کے لیے گاہے وہ رعایت لفظی برتے ہیں اور گاہے کوئی رعایت نہیں برتے ۔ ان کے ہاںموضوع کی مناسبت سے فکر کا اکمل و کامل ابلاغ پایا جاتا ہے۔
یوسفی کا قلم یانُس(Janus) کے بت کی طرح دو چہرہ ہے، جس کا ایک رُخ مشرق کی طرف اور دوسرا مغرب کی سمت ہے۔ انہوں نے مشرق ومغرب ، ہر دو سےاستفادہ کیا اور اس دو آتشاہ مے مزاح آمیز سے حلقہ ادب کو گرما دیا ۔ وہ روایت سے جُڑے بھی تھے روایت ساز بھی ۔ مگر اپنی وضع کردہ روایت کی راہ پر آگے بڑھنے کیلئے انہوں نے جو کڑے معیارات مقرر کیے ۔ اس کے نتیجے میں وہ اس راہ پرتنہا ہی دوڑتے رہے، کہ ان کے قدم سے قدم ملانے میں اوروں کا سانس پھُولتا اور بھرم کھلتا ہے۔
یوسفی مزا ح نگار بھی ہیں اور ’’ مزاج نگار ‘‘ بھی ، ا ن کے یہاں سماج کے قریب قریب تمام طبقات کی نمائندگی پائی جاتی ہے۔ وہ گاہے اپنے کرداروں کی انگلی پکڑ کر چلتے اور گاہے ہاتھ تھما کر آگے بڑھتے ہیں۔ پھر بھی جی نہ بھرے تو کرداروں میں ’’ حلول‘‘ کر جاتے ہیں۔ تب ہو نظارہ ہوتا ہے وہ شمس مشرقی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں۔
خود کو زہ و خود کوزہ گر و خود گل کوزہ،خودرند سبوکش
خود برسر آں کوزہ خریدار برآمد، بشکست رواں شد
یعنی :۔ وہ خود ہی کوزہ ہے، خود ہی کوزہ گر اور خود ہی کوزہ کی مٹی اور خود ہی کوزہ گسار۔ وہ خود ہی اس کوزے کا خریدار بن کر آتا ہے، اور اسے توڑ کر چلا جاتا ہے۔
مشتاق احمد یوسفی کو اردو کے معروف ومعترتنقید نگاروں نے صف اول کا مزاح نگار تسلیم کیا ہے ۔ انہوں نے یوسفی کے فنی محاسن کےضمن میں اس قدر خوبیاں ، خصلتیں اور خصائص گنوائے ہیں کہ ایک ہی سانس میں ان کا بیان غوطہ خوروکےسوائے کسی کے بس میں نہیں، وہ بھی تب جب وہ پانی سے باہر ہوں۔’’ ایسی چنگاری بھی یا رب خاکستر میں تھی‘‘
یوسفی سے قبل اور ہم عصر مزاح نگاروں میں ہر ایک کا اپنا ایک رنگ تھا۔ مگر فن یوسف کی رنگینیوں کے آگے کتنے ہی رنگ پھیکےپڑ گئے۔ سچ تو یہ ہے کہ یوسفی نے اپنی طلسم نگاری سے بہتوں کا لکھا گرد کر دیا۔ وہ مستقبل کے مزاح نگاروں کے یے اس قدر بلند معیار مقرر کر گئے ہیں کہ اس کا پا لینا خواہش اور خواب کے زمرے میں داخل ہے۔
یوسفی حسب موقع دلچسپ اصلاحات اور الفاظ کا استعمال اور گاہے وضاحت بھی کر جاتے ہیں قاری بہتر خط اٹھاسکے۔ تا ہم کبھی معاملہ قاری کے فہم پر چھوڑتے ہیں کہ وہ ان کا لکھا بند نامہ نہ سمجھ بیٹھے۔ بیچا نصیحتوں کے وہ خود بھی قائل نہیں، ان کا تو عقیدہ ہے کہ :

مزاح نگار کے لیے نصیحت ، فضیحت اور فہمائش حرام ہیں۔((جاری ہے)

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More