
ہمروٹ چھتیسی کے دوہے
بھارومل امرانی سوٹہڑ
ہمروٹ چھتیسی کے دوہے
بھارومل امرانی سوٹہڑ
عمرکوٹ کو تھر کے لوگ محبت سے امرانو کہتے ہیں۔ برِصغیر کے تاریخ نویسوں نے عمرکوٹ کو کبھی الف سے اور کبھی عین سے لکھا ہے۔ لوک شاعری میں امرانو اور امرکوٹ کے نام ملتے ہیں۔ سنسکرت اور ہندی میں عمرکوٹ کو ہمیرکوٹ بھی لکھا گیا ہے۔ ہمیرکوٹ سے ہمروٹ بنا ہے۔ "ہمروٹ چھتیسی” میں ریگستان کے نامور کوی بانکیداس کے عمرکوٹ کے پس منظر میں چھتیس دوہے ہیں۔
سوڈھوں سے پہلے عمرکوٹ پر سومروں کی حاکمیت تھی۔ لوک شاعری میں نو کوٹی ماروار کے حوالے سے ملنے والے ایک چھند میں عمرکوٹ اور تھر پر پرمار ونس کے جگرام کی حاکمیت دکھائی گئی ہے۔ سومروں کے حوالے سے بھی تاریخ نویس مختلف آراء رکھتے ہیں۔ ٹھاکر کشور سنگھ کے مطابق سومرے پرمار ونس کے ہیں ( گجراتی اتہاس ص ۲۴) اور یوں ونشاولی (ص ۲۳) پر منشی دیوی پرشاد اور گوری شنکر اوجھا نے یادو بلند کے بیٹے سوما کی اولاد بھاٹی راجپوت لکھا ہے۔ ہمارے پاس سندھ میں ایک رائے کے مطابق سومرو عرب نسل سے ہیں۔
کوی بانکیداس سے منسوب عمرکوٹ کے حوالے سے کچھ دوہے اور بھی ملے ہیں ان پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے
شہر وسایو سومرے عمرکوٹ کہرایہ
کہجے عمرکوٹ تے، سوڈھا لیدھر آیہ،
(عمرکوٹ کا شہر سومرو حاکم نے آباد کیا، اور عمر کوٹ پکارا جانے لگا، سوڈھوں نے ڈھاٹ کے مشہور شہر کو اپنے قبضے میں لیا)
عمر ھتو دوسرو، ھونتو نام ہمیر
تئہ ہمروٹ کہاوہے، سکھ کر نیر سمیر
(عمر دوسرا بادشاہ تھا، جس کا نام ہمیر بھی تھا، اس لیے عمرکوٹ کو ہمیرکوٹ یا ہمروٹ بھی کہا جاتا ہے، یہ شہر شانتی کا ساگر ہے)
شیر شاہ دلی تخت بیٹھو بل نج بانھ،
امرانو جڈ آویو، سرس ہمایوں ساھ
(شیر شاہ سوری نی جب اپنی طاقت کے زور پر مغلوں سے دہلی چھین لی، تب ان کو سر بچانے کے لیے کہیں بھی جگہ نہیں ملی، امرانو پہنچ کر ہمایوں نے سانس سکھ کا لیا)
جت اکبر جنمیو، جائے دھوں وی راہ،
ہوہو ہند اکلیم میں، صاحب شہنشاھ۔
( امرانے کی سرزمین پر اکبر پیدا ہوا، اس مٹی کا کیسا کمال تھا کہ جلاوطن ہو کر آنے والے ہمایوں کا بیٹا برِصغیر کا شہنشاہ بنا )
عمرکوٹ شہر کی بنیاد کس نے رکھی؟ عمرکوٹ کا قلعہ کس نے بنوایا؟ ان سوالوں کا کوئی حتمی جواب نہیں ملتا۔ لیکن ریت کے ٹیلوں اور بیراج کی سخت زمین کے سنگم والی دھرتی کا لینڈ اسکیپ اور قلعے کے مناظر دیکھنے والوں کو جس طرح آج بھی اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں، اس طرح ہمروٹ چھتیسی کے دوہے فن، فکر، آرٹ اور جمالیاتی اظہار سے پڑھنے اور سننے والوں کے دل میں اتر جاتے ہیں۔ عمرکوٹ کی وجہء شہرت تو اس دھرتی پر مغل شہنشاہ اکبر کی پیدائش، عمرکوٹ کا قلعہ اور عمر ماروی کی داستان بتائے جاتے ہیں مگر ہمروٹ چھتیسی کے دوہوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
ہمروٹ چھتیسی کے دوہوں میں تاریخ و تہذیب کے ساتھ عمرکوٹ کا حسن آرٹ کے جھولے میں جھولتا ہے اور سوڈھا راجپوتوں کی بہادری اور سخاوت کے قصے کروٹ لیتے ہیں۔
امرانو امرا پری دھرا سرنگی ڈھاٹ،
رھے جو سوڈھو راجوی پہہ پنھوارن پاٹ ۔
مسافر ! میرا امرانہ (عمرکوٹ) دھرتی پر سورگ کی طرح ہے ڈھاٹ کے ان ٹیلوں پر پرمار سوڈھوں کی حکم رانی ہے ۔
کیہر لنکی گوریاں، سوڈھا چتر سجان،
بڑ جھکیا لانبے سران، آیو گڈ امران۔
(جہاں تیندوے کی پتلی سی قمر والی خوبصورت عورتیں ہوں، جہاں مرد عقلمند اور بہادر ہوں، جہاں لانبے کے تالاب پر برگد کے درختوں کے جھنڈ ہوں، تو وہاں آپ یقین کر لینا کہ یہ آثار امرکوٹ کے خوبصورت قلعے کے ہیں۔)
لانبے کا تالاب، عمرکوٹ کے قریب ایک تالاب کا نام ، لانبو مقامی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے لمبا، بڑا وسیع، بارش کے پانی سے پورا سال بھرا رہتا تھا۔ ساون کے موسم میں ارد گرد کے تالاب ایک ہو جاتے تھے، جوگرائی، ولہار، وہرے، سومری، ہاڑہے تالاب کا پانی لانبے میں گرتا تھا۔ میاں نور محمد کلہوڑے کا پیچھا کرتے ہوئے نادری لشکر یہاں پر رات ٹھہرا تھا۔ اب یہ لانبا تالاب ایک میدان بن کر رہ گیا ہے۔ موجودہ مارئی گراؤنڈ لانبے کی زمین پر بنا ہوا ہے۔
کیہر لنکی گوریاں، سوڈھا چتر سجان ، یہ سطر اس طرح بھی ملتی ہے
کیہر لنکی گوریاں، ڈھولا چتر سجان
رانا امر کوٹ را گیا، جمارو جیت،
جیان را منگل دھمل میں گوریجے جس گیت۔
(اے مسافر! میرے امرانے کے رانے تا زندگی فتح حاصل کر کے لافانی کردار بن گئے ہیں۔ ان کی بہادری، دانائی اور خوب صورتی کے گیت خوشی کے تہواروں پر گائے جاتے ہیں)
سوڈھا امرکوٹ را سر کٹیاں شمشیر
بانہیں ہینا ویر ہر ، بانکا مارتھ ویر
اے مسافر! میرے امرکوٹ کے سوڈھے بڑے جنگجو ہیں وہ جنگ کے میدان میں تلواروں سے سر کٹوانے سے کبھی ڈرتے نہیں ان کو سر کٹوانے کے بعد بھی یدھ آتی ہے۔ غریب اور کم زور لوگوں کے محافظ سوڈھے بڑے بڑے سورماؤں سے مقابلہ کرنے والے ہیں۔
ایک ایک سوں آگلا، رانا امرکوٹ،
پرگھٹ ہوئا پرماروی مانیگر من موٹ۔
(اے مسافر میرے امرکوٹ کے رانے بہادری، سخاوت اور وجاہت میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔ یہ پرمار ونس (حسب نسب) سے تعلق رکھنے والے راج پوت سرمائے اور ہتھیار کے بہتر استعمال سے غریب پروری کرتے ہیں اور کمزور کا تحفظ کرنے میں بے مثال ہیں۔)
ڈھاٹ سرنگی گوریاں، آڈو کہوت ایہہ،
پدمنیا ہمروٹ ہووے، راکھ م سنسو ریہہ۔
(ڈھاٹ کی خوبصورت عورتوں کا حسن دنیا میں مثالی ہے، بڑے عرصے سے کہا جا رہا ہے کہ امرانے/عمرکوٹ (ہمروٹ) کی پدمنی کے حسن میں کوئی شک نہیں ! وہ بے حد حسین ہے۔)
ایکے پدمنی واسطے سیندھل گیو رتن،
امرکوٹ نہ آویو، متو کیو کی من
(میں حیرت سے سوچتا رہتا ہوں ہے کہ چتور کا رانا رتن سنگھ ایک پدمنی کی خاطر سیندل (سری لنکا) کیسے گیا!؟ امر کوٹ کیوں نہیں آیا اس کا دل کیسے بدل گیا، سیندھل (سری لنکا) سے زیادہ حسن امرکوٹ میں موحود تھا اسی خوبصورتی کی کشش کیوں نہیں ہوئی!؟)
نوین چنچل سرون لگ لانبا وینی ڈنڈھ،
ھکے سہج سواس وبھو کرلایو شری کھنڈھ۔
سندریوں کی چنچل آنکھیں ہیں اور سیاہ بال خوب صورت انداز سے سجے ہوئے ہیں، بالوں کی چوٹیاں کانوں اور پشت تک لٹک رہی ہیں اگر گوریاں گھنگھریالے بال کھول لیں تو وہ ان کے پیروں کی ایڑیوں تک جا پہنچیں۔ ان کے پیروں کی خاک بھی مہک جائے، ان کا سارا بدن مہکتا ہے جیسے کسی نے ہاتھ سے چندن انڈیل دی ہو۔ لانبے تالاب کے ایسے حسن کی تعریف نہ کرنا جرم ہے۔
لاگان کسم سرس وبھو جیاں ری پڑی کھڑوٹ،
حد ناجک ہرن انکھیاں، ھئہ مانجھل ہمروٹ،
امرانے کی خوب صورت عورتوں کے حسن میں رتی بھر بھی کمی نہیں ہے، ان کے بدن سرسوں کے پھول سے بھی زیادہ خوب صورت ہیں اور وہ بے حد نازک آہو چشم ہیں۔ یہ حسین ہمروٹ ہے۔
انکھڑیاں انیلیاں کاجل ریکھ کیانھ،
بھنبھلیاں بھاو ویاں لاج سینھ لیانھ۔
اے مسافر میرے امرانے کی حسیناؤں کی آنکھیں بڑی اور چمک دار ہیں۔ ان آنکھوں میں کاجل کی لکیریں بنائی جاتی ہیں، آنکھوں کا حسن کیسے بیان کروں بڑی بھوؤں کی ساتھ یہ لجاتی آنکھیں سب سے الگ ہیں۔
انگ انگ ماہیں اوپھنے، جوون آٹھوں جام
تیوں ڈھاٹی تصویر رو قلم، ہوئے نہیں کام،
اے مسافر میرے امرانے کی حسیناؤں کے انگ انگ سے آٹھوں پہر جوبھن کا جام چھلک رہا ہے۔ ایسے حسین ڈھاٹی حسن کی تصویر کشی کرنا میرے قلم کی طاقت سے باہر ہے ۔
گھونگھٹ کھولوی نہیں بولوے پک وین
گج گت جاوی گوریاں لانبے سر جل لین
اے مسافر میرے امرانے کی حسینائیں ہمیشہ گھونگھٹ میں رہتی ہیں ہر کسی کو ان سے بات کرنے کی جرئت نہیں ہوتی، میٹھی بولی والی گوریاں ہاتھی کی چال چل کر لانبے پر پانی بھرنے جاتی ہیں۔
نوا سرنگا اوڈھیاں، چنگا جھینا چیر
بھرھے ہیم ورنیاں، ڈدھ ورنو نیر
یہ پدمنیاں رنگین اور نفیس پہناوے پہن کر لانبے تالاب سے پانی بھرتی ہیں، تو اس وقت رنگوں کا ایک دل کش امتزاج نظر آتا ہے۔ وہ سونے جیسی سندریاں ہیں اور (ان کے سروں پر) دودھیا پانی ہے۔
نک سوں لی چوٹی لگی تن چھپے مانھیں ترنت،
رل مل کیہر لنکیاں، لانبے نیر بھرنت۔
اے مسافر میرے امرانے کی حسیناؤں کے حسن کی کیا تعریف کروں، وہ ہر پہلو سے دل کش ہیں، ان کے سر کے سنوارے ہوئے بال پاؤں کے ناخنوں تک پہنچتے ہیں۔ پاؤں کے ناخنوں سے بالوں کی چٹیا تک کامنیوں کا حسن آسمانی بجلی کی طرح چمکتا ہے، تیندوے کی پتلی سی کمر والی خوبصورت سندریاں لانبے سے پانی بھرتی ہیں
لانبے سر پانی بھری گوری گات انوپ
جیاں آگے پانی بھرے رنگ الو کک روپ
(اے مسافر میرے امرانے کے لانبے تالاب پر پانی بھرنے کے وقت گوری کا حسن سے دل کش منظر ہوجاتا ہے، جس کے سامنے کائنات کے سارے حسین رنگ اپنی شکست تسلیم کرنے لگتے ہیں۔)
اس دوھے کے دوسری سطر اس طرح بھی کہی جاتی ہے:
جیاں آگے پانی بھرے رنبھا الو کک روپ،
جس کے سامنے اندر دیوتا کی حسین رانی رنبھا اپنی شکست تسلیم کرتی ہے
گھر گھر میں دھینا گھنا گھر گھر گھورم ماٹ
راگ رنگ رلیامنو دھر پڑ مانجھل ڈھاٹ
(اے مسافر میرے امرانے میں ہر ایک کے پاس مال مویشی ہے، ہر گھر سے صبح سویرے دودھ بلونے کی میٹھی آواز گونجنے لگتی ہے، یہ راگ اور رنگ مل کر ڈھاٹ کے منظر نامے کو خوب صورت بنا دیتا ہے۔)
مہیلاں پونم چندر مکھ، آٹھم چندر للاٹ،
کیہر لنکی گوریاں ،بھروں بھمراں گھاٹ۔
امرانے کے سندریوں کا چہرہ پونم کے چاند کی مانند ہے اور ان کی پیشانیاں آٹھویں تاریخ کے چاند کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔ تیندوے کی پتلی سی کمر جیسی سندریوں کی بھویں بھونروں کی سی ہیں۔
یہ سطر اس طرح بھی ملتی ہے۔ کیہر لنکی کڑجیوں کھیں کڑ بھروں بھمراں گھاٹ۔
ایکی ڈٹھاں ڈٹھ سہہ مہیلاں چمپک مال،
کر سوں لیڈھی توڑ کر روپ رونک اک ڈال۔
امرانے کی پدمنیاں سب ایک جیسی ہیں۔ ایک کو دیکھ لیا، گویا سب کو دیکھ لیا۔سبھی چمپا کی مالا جیسی ہیں۔ خوب صورتی میں کوئی بھی کم نہیں ہے۔ سبھی حسن کے درخت کی ٹہنیاں ہیں جنھیں توڑ کر جیسے الگ الگ کر دیا گیا ہو۔
کومل راتا پاتلا،ادھر جکاں را ایک،
بھیلاسی پیون امر سدھا جام ری سیک۔
(اے مسافر! میرے امرانے کی خوب صورت لڑکیوں کے لب کومل لال پتوں کی طرح ہیں، ان پر انسان ہی نہیں، دیوتا بھی فدا ہوکر ہونٹوں کا امرت پینے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔)
ڈانت چمکے ایر ڈن، جان چمکے بیج،
جیاں ری ڈھنی مڈھوری سنی، رہے تپشوی ریجھ۔
اے مسافر میرے امرانے کی حسینائیں جب بولتی ہیں تو ان کے دانت اس طرح چمکتے ہیں جیسے آسمانی بجلی چمکتی ہے ۔ بولنے کی میٹھی آواز سن کر تارک الدنیا بن کر جنگل میں یوگ کرنے والے یوگی مفتون ہو جاتے ہیں۔ ان کی تپسیا بیچ میں ٹوٹ جاتی ہے۔
کمل جیسا کماریاں کر چوڑا رنگیا چول
لانبے جل لہراں کڑس بھرے ہلول ہلول۔
(اے مسافر میرے امرانے کی کامنیوں کے ہاتھ کمل جیسے ہیں، وہ اپنی بانہوں میں رنگین چوڑے پہنے ہویے ہیں۔ وہ اپنے نازک اور دلکش ہاتھوں سے لانبے تالاب کا پانی مٹکوں میں بھر کر ایک آہنگ سے چلتی ہیں۔
کماریاں کے جگہ پر سکمار کا بھی لفظ ملتا ہے، سکمار کی معنی حسین کامنی ہے۔)
ہیم کڑس انگ اوپر، نیر کڑس سر لیئے،
پنگھٹ ہوتاں باہڑیاں ،کڑس کمل کردیئے۔
اے مسافر! میرے امرانے کی حسینائیں بڑی خوب صورت ہیں۔ سونے جیسی چھاتیاں مٹکوں کی مانند سینے کے اوپر ہیں اور دو مٹکے پانی سے بھرے ہوئے سر کے اوپر ہیں۔ لانبے کے پنگھٹ سے پانی بھر کے واپس ہوتے ہوئے وہ سوچتی ہیں کہ کمل جیسے ہاتھ کون سے مٹکوں پر رکھیں۔
سرور لانبے سنچرے، پنگھٹ پدمنیانھ
کر گنوان کماریاں، وبھو سوبھا ونیانھ۔
اے مسافر! میرے امرانے کی پدمنیاں لانبے کا پانی بھر کے، اپنے سر کے اوپر دو مٹکے رکھتی ہیں تو محسوس ہوتا ہے گویا پنگھٹ کے اوپر اپسرائیں خوب صورت لباس زیب تن کر کے زمیں پر آ گئی ہیں۔
جیاں را بھوئینگ روپ چھتیاں نیں کجل ریکھوال
پڑہے لہراں مس پگاں تیاں ہندا اوتال
(اے مسافر! میرے امرانے کی حسیناؤں کے سیاہ بال کالے سانپ کی طرح لگتے ہیں اور ان کی کالی بڑی آنکھوں میں کاجل کی دھارا رکھوالی کا روپ اختیار کرتی ہے، پانی کائی اور لہریں کامنیوں کے پیر بہوٹی جیسے پاؤں کو چھونے کی کوشش کرتی ہیں۔)
جیاں را بھوئینگ روپ چھتیاں نیں کجل ریکھوال
پڑہے لہراں مس پگاں تیاں ہندا اوتال
(اے مسافر! میرے امرانے کی حسیناؤں کے سیاہ بال کالے سانپ کی طرح لگتے ہیں اور ان کی کالی بڑی آنکھوں میں کاجل کی دھارا رکھوالی کا روپ اختیار کرتی ہے۔ پانی، کائی اور لہریں کامنیوں کے بیر بہوٹیوں جیسے پیروں کو چھونے کی کوشش کرتی ہیں۔)
جیاں را بھوئینگ روپ چھتیاں نیں کجل ریکھوال ، یہ سطر اس طرح بھی ملتی ہے
جیاں را برگ کچ چھتیاں، سوھ نکج سینوال
حسیناؤں کے کنول جیسی آنکھیں اور زلفوں کا حسن دیکھ کر پانی چھلانگ لگا کر پاؤں چومتا ہے۔
جڈ گھر ری تج ڈہلی، پنگھٹ سمھاں پایہ،
باجے گھنگھرو پاربن، سونھن سرور جایہ۔
اے مسافر! میرے امرانے کی پدمنیاں جب گھر کے صحن کی حد بندی سے نکل کر لانبے تالاب کے پنگھٹ کی طرف قدم بڑھاتی ہیں تو ان کے پیروں کے گھنگھرؤں کی چھم چھم تالاب کے حسن کو دو بالا کر دیتی ہے۔
ہنس جیہی ہالونیاں ڈھاٹینیاں تیانھ،
کنک لتا کاٹھیوڑیاں ،جوڑی نہیں جیانھ۔
(اے مسافر! میرے امرانے کی پدمنیاں ہنس کی چال چلتی ہیں۔ ڈھاٹ کے حسن کی کیا تعریف کریں، کاٹھیاواڑ کے سناروں نے بھی ایسے حسین زیور نہیں بنائے ہیں ۔)
دھن امرانو ڈھاٹ دھر پدمنیاں بن پار،
سھ ناری سیکوتری، دھرتی ہند دھکار۔
(اے مسافر! میرے ڈھاٹ کے شہر امرانو کا حسن قابلِ تعریف ہے۔ اگر تجھے زمیں پر حسن دیکھنا ہے تو دوسرے جانب مت دیکھو، ہند کی دھرتی کو چھوڑ کر سندھ کی سرزمیں پر عمرکوٹ چلے آؤ، جہاں ہر ایک سندری حسن کی دیوی سیکوتری ہے۔)
سوچچ کیول مہلیاں ماہیں چھپے نہیں منانھ
پات گھڑ سونی ویلڑیاں آپے ہاتھوں تنانھ
(اے مسافر! میرے امرانے کے سندریوں کے گال ایسے صاف شفاف اور خوب صورت ہیں کہ دیکھتے ہی آدمی کو ایک کشش محسوس ہوتی ہے، ان کا حسن کبھی چھپ نہیں سکتا، پدمنیوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کام دیو (عشق کے دیوتا) نے اپنے ہاتھوں سے سونے کے پتے بنا کر ان کے اوپر نقش کر دیئے ہیں)
یہ سطر اس طرح بھی ملتی ہے
پات سمر سونی کیاں جر جانری تنانھ
کام دیو نے اپنے ہاتھوں سے سونے کے پتے بنا کر، ان پہ ہیروں اور موتیوں سے نقش و نگار بنا دیے ہیں
سھ آبھرنا سوبھے وینڈھل جھولتیاں
جانے پھولاں بھار جت ہاٹک ویلڑیاں
(اے مسافر! میرے امرانے کی پدمنیوں کے بنے ہوئے بال اور پہنے ہوئے زیورات کتنے خوب صورت لگتے ہیں۔ دیکھنے سے محسوس ہوتا ہے جیسے حسن کے باغ میں پھولوں کے بوجھ سے سونے کی بیلیں جھک گئی ہیں۔)
یہ دوہا اس طرح بھی ملتا ہے
سہ ابھرانا سوبھے اول جھول تیانھ
جانے پھول بھار جت، ہاٹک ویلڑیاںھ
( اے مسافر! میرے امرانے کی پدمنیاں زیورات سے کتنی خوب صورت لگتی ہیں۔ ٹولیوں میں اس طرح جھومتے آ رہی ہیں، دیکھنے سے محسوس ہوتا ہے جیسے حسن کے باغ میں پھولوں کے بوجھ سے سونے کی بیلیں جھک گئی ہیں۔)
چیرے پونم چندر کاڈھے کامنیانھ،
کایا سینگل ڈھاٹ دھر دیکھو دامنیانھ،
(اے مسافر! پونم کے چاند کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصے سے امرانے کی کامنی تخلیق کی گئی اور دوسرے حصے سے سیندل (سری لنکا) کے پدمنی کو۔)
جھکان کنجریٹاں مرگاں نبر ہٹک سرانھ
جیتوار جیاں را نین سرور مہاں سدھ رانھ
(اے مسافر! میرے امرانے کی پدمنیوں کی آنکھیں مچھلی، کونج اور ہرن جیسی ہیں۔ کام دیو ( عشق کے دیوتا) کے ستائے ہوئے پجاریوں کے لیے وہ کمل کے پھولوں کی طرح ہیں)
جس دس ڈساں اوپے جکاں لوپے نہیں کل لاج
دیا ہزاراں ہیک دن ڈھاٹ تناں دھنراج
(اے مسافر! ان کی شہرت دسیوں اطراف میں پھیلی ہوئی ہے۔ انھوں نے کبھی اپنے خاندان کی عزت نہیں گنوائی ہے۔ یہ ڈھاٹ کے دھن راج ہیں جنہوں نے ایک دن میں ہزاروں پر سخا کی بارش کی ہے.)
لوک جنی رنکو نہیں، نہیں سنکو پر تھاٹ،
سوڈھا جس ڈنکو گھرے، پاگھر ونکو ڈھاٹ۔
(اے مسافر ان سے نہ تو لوگوں کو رشک ہے نہ ہی کسی کا حجاب ہے سوڈھوں کی ناموس کا ڈنکا ہر جگہ پر بج رہا ہے۔)
کی ایران ؟کی عراق ؟کیسوں کیچ مکران!؟
کھیت ترنگان ڈھاٹ جم وانکا ڈھاٹ وکھان۔
(ایران عراق اور کیچ مکران کے گھوڑے ڈھاٹی گھوڑوں کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔ ڈھاٹ عمدہ گھوڑوں کی زمین ہے، بہادر ڈھاٹی لوگوں کی طرح ان کے گھوڑے بھی قابلِ تعریف ہیں۔)
جیھاں ڈینھاں سوراج ست، رانو رایانمل،
تیھاں ڈینھاں جودھن جسو، امرانو جگ ڈھال۔
(جن دنوں سورج کا بیٹا رانو رایانمل ( رنمل ) ڈھاٹ پر حکومت کرتا تھا اس وقت بہادروں کا شہر امرانو دنیا کی حفاظت کرتا تھا۔)
پورو سکھ ہمروٹ پر لوک نہ جانے ڈنڈ
چھولاں جل لانبو چھلے بڑ لاگا برہمنڈ
(اے مسافر میرے ہمروٹ (عمرکوٹ )کی دھرتی پر مکمل سکون ہے، لوگوں کو کسی بات کی تکلیف نہیں ہے۔ جب لانبے کا پانی بڑی موج سے لہریں مارتا ہے تب لانبے کے کنارے پر برگد کے بڑے درخت آسمان کو ناپتے ہوئے جھکتے ہیں۔)
راؤ کلا رے وار میں، اینڈر نگر انوپ،
واری رایانمال ری ، امرانو ان روپ۔
(راؤکلا کے زمانے میں جس طرح اینڈر نگر حسین اور مضبوط تھا راؤ رایانمال کے وقت میں امرانو اسی طرح کا ہے ۔)
مہوں چھتیساں ڈوہیڑاں، ہئہ ورنن ہمروٹ،
اے ہمروٹ چھتیسی، منکھ سنے منموٹ۔
(یہ میرے چھتیس دوہے امرکوٹ کے رنگ و روپ کے عکاس ہیں اس ہمروٹ چھتیسی کو اہلِ دل بڑے غور و فکر اور پیار سے سنیں گے۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھارومل امرانی شاعر لیکھک اور ماحولیاتی کارکن ہیں، ان کا ای میل ایڈریس ہے۔
Bharumal.amrani5@gmail.com