‘ ہماری دس منٹ کی نماز انھیں کَھلے ہے۔’
تحریر ڈاکٹر فاروق عادل

جیسے ہی بس ذرا سا کھنگار کر آگے بڑھی، ان کی گفتگو شروع ہو گئی۔
‘ آپ کہاں سے ہو بھائی ؟ ‘
‘جے پور سے اور یہ بھائی ہے اودے پور سے۔’
‘ پر تو کہاں سے ہے؟’
‘میں جی یوپی سے۔ اب تم پچھو گے یوپی سے کہاں سے تو بھائی میں مجفر ( مظفر) نگر کا ہوں۔’
‘ کیا اللہ کی سان ( شان) ہے یہاں۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔ جی بھر کے عبادت ہو رئی یہاں تو۔ کس کس رنگ کا مسلمان یہاں دیکھنے کو مل را۔ ‘
‘ ہاں، ٹھیک کہوے ہے بھائی۔ وے ہمارے بھائی، پاکستان بنڑا ( بنا) اچھے رہ گئے۔’
‘ ہماری دس منٹ کی نماز انھیں کَھلے ہے۔’
ہاں بھائی، خود تو پورے دس دن سب کچھ بند رکھے ہیں۔ سکول تک بند کر دیوے ہیں۔’
‘ بس جی، یہی ہماری قسمت ہے اب تو’
وہ خاموش ہوا تو مسافر نے پلٹ کر پیچھے دیکھا اور سوال کیا کہ یہ پورے دس دن ہندوستان بند کیوں رہتا ہے؟
ان کا تیوہار ہوتا ہے بھائی، کاوڑا۔ ان دنوں وے گنگا سے پانی لاتے ہیں کاندھوں پر رکھ کر۔
یوپی والا اپنی بات کہتا رہا، میرے کانوں میں اقبال کا نغمہ گونجا،
ملا کو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
یہ بات تو ہوئی اقبال کے زمانے کی بات جب مولانا ابوالکلام اور حضرت مدنی کو ہندوستان میں آزادی دکھتی تھی، کاش یہ بزرگ سمجھ پاتے کہ پچھتر برس کے بعد ان کی اولادوں پر کیسا وقت آنے والے ہے۔
‘ اے ہے، کوئی اے سی ہی چلا دو’۔
یوپی والے کے پہلو میں بیٹھی بی بی گرمی سے گھبرا کر چلائیں۔