کسے وکیل کریں؟
شمائلہ عزیز ستی
انسانی زندگی ہر بدلتے دن ایک نیا رخ بدلتی ہے۔صبح اور شام اور ۔
بدلتے شب و روز کے ساتھ زمانے کے انداز بھی بدلتے ہیں۔نیکی بدی ،خیرو شر ،گناہ و ثواب درجہ بدرجہ اب بھی موجود ہیں لیکن ان کے معیار و پیمانے بدل گئے ہیں۔ظلم کے طریقے بدل گئے تو انصاف کے تقاضے بھی اور سے اور ہو چکے ہیں۔ترقی کی نئی راہیں زیر آسمان نکلی ہیں تو فرسودہ سوچ رکھنے والے لوگ بھی اسی زمین پر موجود ہیں۔جہاں تہذیب و ثقافت کو بچانے والے موجود ہیں وہیں پہ رسم و روایات کو پامال کرنے والے بھی بستے ہیں۔اک طرف مذہب کی روح کو زندہ رکھنے کی جنگ لڑنے والے ہیں تو دوسری طرف ملحدین و منکرین کی ایک بڑی تعداد اپنے نظریے کو لے کر بیٹھی ہے۔۔یعنی اس دنیا میں موجود ہر شخص نے اپنی ذہنی استطاعت کے مطابق اپنا نظریہ حیات منتخب کر رکھا ہے وہ درست سمت جا رہا ہے یا اس نے غلط رستہ چن لیا ہے اس سے بے خبر وہ خود کو درست مانتے ہوئے اس پر سختی سے کاربند ہے ۔
یہ نظام حیات فطری ہے۔نیکی بدی کا تضاد تا قیامت جاری رہے گا۔اسی تضاد سے نظام زندگانی چل رہا ہے۔یہ جنگ جاری ہے تو توازن برقرار ہے جس دن کسی ایک کی جیت ہوئی زندگی کی دلکشی ختم ہو جائے گی۔مکمل سکون ۔اس سکون کا مطلب خاتمہ ہے۔پھر بھی شعور کا یہ تقاضا ہے کہ ہم درست سمت کا انتخاب کریں۔نیکی و بھلائی کا رستہ اختیار کریں۔علم و انصاف کے رستے پہ چلیں۔برائی کے خلاف مزاحمت کریں۔ظالم اور ظلم کے حامی نہ بنیں۔یہی زندگی کی اصل روح ہے ۔کچھ کو تقدیر عطا کرتی ہے شعور اور کچھ اپنے زور بازو ،اپنے گردوپیش سے سیکھ کر اپنے لیے درست راہ متعین کرتے ہیں مگر اس راستے پہ چلنے کے لیے ایک حساس دل ہونا لازم ہے جو مسلسل درد محسوس کرے ،برداشت کرے اور مخلوق خدا کے درد کو اپنا درد سمجھ کر،ان کے غم بانٹے ،ظلم کے خلاف لڑے ۔۔۔۔اپنی استطاعت کے مطابق۔
آرام دہ زندگی جینے والے کسی کی بے سکونی اور درد کو محسوس نہیں کرسکتے۔جس نے خود تلخی حیات سہی ہو وہ بہتر درد کے معنی سمجھ سکتا ہے. اس دور پرفتن میں ہم روزانہ نت نئے اچھے برے واقعات سنتے بلکہ سوشل میڈیا کی مہربانی سے دیکھتے بھی ہیں۔بعض واقعات اس قدر دلخراش ہوتے ہیں کہ مجھ جیسے کمزور دل لوگ ہفتوں سو نہیں پاتے ،اضطراب اور بے سکونی سے سکون زندگی برباد کر لیتے ہیں وہ اپنی رائے دینا بھی چاہیں تو ان کے پاس حوصلہ نہیں ہوتا۔لکھنا چاہیں الفاظ ساتھ نہیں دیتے۔میں ان میں سے ایک ہوں۔
مجھ سے کئی لوگوں نے گلہ کیا کہ آپ نے نیو مری کے جوانوں کا اغواء ،کچے کے علاقے میں استاد کا بہیمانہ قتل ،لقمان ستی کی لاش کا ملنا ،فیصل آباد والا واقعہ یا پھر سانحہ ٹوبہ ٹیک سنگھ سمیت دیگر افسوسناک واقعات۔۔۔میں کچھ نہ لکھ سکی،میں نے سوشل میڈیا پہ طوفان بدتمیزی برپا کرنے والے جہلا کی وجہ سے سیاسی تناظر پہ بھی بات کرنا چھوڑ دی۔شاید بطور خاتون مجھے اپنی عزت نفس زیادہ عزیز ہے۔یا ذاتی تحفظات کہیں گے۔مگر مجھ میں موجود وہ ایک ناتجربہ کار لکھاری ہمیشہ لعن طن کرتا رہتا ہے کہ
"تم کیسے خاموش بیٹھ سکتی ہو ؟ ”
اس جیسے کئی سوالات ہمیشہ میرے تعاقب میں رہتے ہیں۔میں نے ان سوالات سے چھٹکارہ پانے کے لیے اپنے قلم کا رخ کئی دوسری سمتوں میں موڑنا چاہا مگر سب بے سود ۔
مگر سوچتی ہوں ہم کچے کے ڈاکوں سے خائف ہیں۔لیکن جب تاریخ کو پڑھتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ ہر دور میں ایسے کردار موجود رہے جو طاقتور دور حکومت میں عوام و حکمرانوں کے لیے مسلہ بنے رہے یا وہ ریاست کے کسی مضبوط طبقے کی سربراہی اور پشت پناہی میں رہے کہ وہ طبقہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جب جب چاہے انہیں استعمال کر سکے۔
ورنہ حیران کن بات ہے کہ سرحدوں پہ دشمن پہ غالب رہنے والی طاقتور افواج اور اعلی ریاستی معاملات چلانے والے ادارے کیا ریاست میں انتشار پھیلانے والے کسی گروہ کی سرکوبی نہیں کر سکتے ۔لہذا کچے کے ڈاکوؤں سے کہیں زیادہ خطرہ ہمیں پکے ڈاکوؤں سے ہے۔
پھر جہاں ریاست جو ماں جیسی ہے وہ عوام کا خیال نہیں رکھ سکتی وہیں کوئی عوامی نمائندہ ہی اٹھ کر مدد کرتا ہے تو اس کی طاقت اور پہنچ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ہم ظلم و بربریت کے خلاف متحد ہوں یا آواز اٹھائیں گے تو اس کے پیچھے بھی کئی محرکات ہوتے ہیں ۔مظلوم و محروم کا سماجی درجہ ،ہمارے ذاتی ،سیاسی ،مذہبی و معاشرتی فائدے۔۔۔جس کے پیچھے تگڑا ہاتھ ہو, وہاں ہم اتحاد و انصاف کے نام پر صف اول میں کھڑے ملیں گے۔سوشل میڈیا پہ ہیش ٹیگ چلائیں گے مگر کوئی غریب مارا جائے ہماری بلا سے ۔بس انا للہ پڑھ لینا کافی ہے ۔یہ دنیا مفادات کی دنیا ہے۔
وہ عوامی اور سیاسی نمائندے جو ہر اچھے برے میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں انتخابات میں ہم انہیں دس پندرہ ووٹ سے زیادہ نہیں نوازتے مگر یوں سالہا سال اپنے فوائد کے لیے ان کے در پر کھڑے رہتے ہیں۔صرف ایک سیلفی کے لیے سو دھکے کھاتے ہیں۔لکیر کو پیٹتے پیٹتے گزر جاتے ہیں مگر عقل استعمال کرنے نوبت نہیں آتی۔
ہر سال پتنگ بازی سے کئی جانیں ضائع ہوتی ہیں ،پابندیاں بھی لگتی ہیں ،حفاظتی انتظامات بھی کیے جاتے ہیں۔مگر قاتل دوڑ بنانے والے بھی موجود ہیں۔ہر سال رونا رویا جاتا ہے مگر انجام وہی۔
ہزاروں معصوم بچے اور لڑکیاں جنسی زیادتی کا شکار ہو کر مار دیے جاتے ہیں۔ہم لوگ ،تعلیمی اداروں ،گلیوں بازاروں ،اپنے گھروں حتی کہ قبروں میں لاشیں تک محفوظ نہیں ۔چند دن خوب چیخ و پکار ہوتی ہے۔پھر کوئی نیا واقعہ ہو جاتا ہے اور ہم اس موضوع کو یکسر بھول کر نئے موضوع پر بات کرنے لگ جاتے ہیں۔ہماری زندگیوں میں خوشی کی عمر تو ہے ہی مختصر ،غم کا دورانیہ اس سے بھی کم ہے۔
فلسطین کے حالات پہ واویلا مچاتے مچاتے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا واقعہ رونما ہو جاتا ہے ۔ہم فلسطین کو بھول کر اس واقعے پر ماتم کرنے لگ جاتے ہیں۔مگر بس اس وقت تک جب تک کوئی نیا سانحہ نہیں ہو جاتا۔اس افراتفری کے دور میں بس اتنا ہی ممکن ہے۔کیا اپنی ذمہ داری بس اتنی ہے ؟ یا بس ایمان کی کمزور ترین حالت دل میں برا جان لینا ہی کافی ہے؟
رونے والوں کا رونا کس کام کا ہے ؟
یا اس دور میں جینے کے لیے بے حسی شرط ہے ؟
کوئی جواب تو ہو گا ؟