کڑی کا تھم ( ستون)
اوسیاہ ۔مری

تحریر..حبیب عزیز
ہماری مقامی پہاڑی زبان میں کسی بھی عمارت یا تعمیر میں استعمال ہونے والے ستون کو ” تھم کہا جاتا ہے۔
آج جس ستون کا تھم کا ذکر ہو رہا ہے وہ گزشتہ کئی صدیوں سے ہمارے گاؤں کے بیچوں بیچ واقع ایک پرانے قبرستان میں ایستادہ ہے۔
قدیم قبرستان اب میدان بن چکا ہے لیکن اس کی کچھ باقیات اس میدان کے کناروں پر اب بھی موجود ہیں۔
اس تھم کے صدیوں سے اس جگہ ایستادہ ہونے کی بات میں اس لئے وزن ہے کہ ہم میں سے وہ لوگ جو کم ازکم دو یا تین پرانی نسلوں سے مل چکے ہیں وہ سب یہ بات مانتے ہیں کہ ان تینوں پرانی نسلوں نے اپنے اپنے وقتوں میں اس تھم کی یہاں اسی طرح موجودگی کی تصدیق کی ہے۔
یہ ستون یہاں کب سے ہے؟ کس نے یہاں ایستادہ کیاتھا ؟ اور اس کا مقصد کیا تھا ؟؟ ان باتوں کی درست تحقیق تو اب ممکن نہیں ہے کیونکہ ہماری تاریخ کی سینہ با سینہ روایات کے امین بزرگ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔قدیم زمانے میں تاریخ لکھنے یا نوٹ کرنے کے بجائے یاد کرلی جاتی تھی۔
1990 سے شروع ہونے والے گوبل ویلج ٹائپ ماڈرن دور میں ویسے بھی نئی نسل کی دلچسپیاں اور طرح کی ہیں۔انہیں اپنے علاقے کی تاریخ یا ایسی چیزوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔۔90 کے بعد پرانی نسل کے بزرگ بھی تقریبا ختم ہوچکے ہے۔
اس لئیے اب اس تھم سے متعلق میں نے یا میری جنریشن کے دیگر لوگوں نے بزرگوں سے جو کچھ سن رکھا ہے اسی پر اکتفا کرنا پڑے گا۔یقینا ان باتوں میں تصیح یا درستگی کی گنجائش موجود ہے ۔
جو صاحب تصیح کرنا یا مزید کچھ معلومات دینا چاہیں وہ ضرور کمنٹ کریں۔ایک طرح سے آپ کے کمنٹس یا معلومات ہمارے گاؤں اوسیاہ کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئیے ایک تحفہ ثابت ہوگی۔
اوسیاہ میں مکہ چوک سے اوپر کی طرف جائیں تو گاؤں کے درمیان ایک میدان موجود ہے جو کسی زمانے میں قبرستان ہوا کرتا تھا۔میں نے خود اپنے بچپن میں یہاں قدیم پتھر کی سلیں یا قبروں کا سنگی کاٹھ دیکھا ہے جس سے قبروں کو ڈھانپا جاتا تھا۔مطلب اس وقت تک قبروں کے نشان موجود تھے ۔اسی میدان کے شروع میں شہیر چچا کے گھر کے سامنے ایک چبوترے پر لکڑی کا یہ قدیم ستون یا تھم کھڑا ہے۔
ہمارے بچپن میں بھی یہ تھم اسی طرح موجود تھا۔فرق صرف اتنا تھا کہ اس وقت یہ چبوترا ہاتھ سے تراشے ہوئے پتھروں سے بنا ہوا تھا جس پر کسی قسم کا سیمنٹ یا فرش نہیں تھا۔ستون کا اوپری حصہ کھلا ہوا تھا اور موسموں کے اثر کی وجہ سے کالا پڑ چکا تھا۔مجھے اچھی طرح یاد یے کہ میں جب بھی اپنے والد مرحوم کے ساتھ اس جگہ کے آس پاس کسی گھر میں شادی یا ماتم پر جاتا تھا تو اس ستون کے پاس اکثر بابو عرفان صاحب مرحوم ملا کرتے تھے۔وہ یہاں اگربتیاں جلایا کرتے تھے۔
بعد کے برسوں میں یہ ستون ڈھے گیا۔کافی عرصہ یہ ستون اسی جگہ ترچھا پڑا رہا۔پھر اس چبوترے کی مرمت کی گئی اور ستون کے سر پر لوہے کی چادر کی ٹوپی پہنا کر دوبارہ اسی جگہ کھڑا کردیا گیا۔ایک بار کچھ دوستوں نے بتایا تھا کہ اسی زمانے میں کافی عرصہ یہ ستون پڑوس کے ایک گھر میں بھی محفوظ کیا گیا تھا۔
اس ستون سے متعلق جو روایت میں نے سنی ہے اس کے مطابق یہ ستون پوٹھہ شریف سے خود پیدل چل کر اوسیاہ آیا تھا۔
پوٹھہ شریف مری میں ایک مشہور تاریخی گاؤں ہے جہاں مری کے خاندان عباسیہ کے جد امجد دادا ملک سورج صاحب کا مزار موجود ہے ۔یہ مزار کئی سو سال پرانا ہے۔اس کے ساتھ ملحق پوٹھہ شریف کی جامع مسجد بھی ایک صدی پرانی ہے اور فن تعمیر کا شاہکار ہے۔واضح رہے کہ اوسیاہ سے پوٹھہ شریف کئی کلو میٹر دور ہے۔سارا علاقہ پہاڑی ہے جہاں پہلے وقتوں میں روڈ کا نام و نشان تک نہیں ہوتا تھا۔
پوٹھہ شریف میں واقع دادا ملک سورج کے مزار کا دلکش منظر
بہرحال تاریخی طور پر اس روایت کی تحقیق اب شائد ممکن نہ ہو۔نہ ہی یہ علم ہوسکتا ہے کہ اگر یہ ستون خود آیا تھا تو کیوں آیا تھا۔
لیکن ایک بات پکی اور طے شدہ ہے کہ یہ ستون یا تھم ہمارے گاؤں کی ایک تاریخی یادگار ہے۔اس کی یہاں صدیوں سے موجودگی کی گواہی بھی ہے۔روایات یا کسی قسم کی عقیدت سے ہٹ کر بھی یہ ستون ہمارے لئیے ایک تاریخی ورثہ ہے۔
اس ستون کے قریب اوسیاہ کی ایک نامور فیملی کا چھوٹا سا قبرستان ہے۔ستون والی جگہ کے حقوق ملکیت سے متعلق وہ فیملی یا پاس پڑوس کے لوگ زیادہ بہتر بتاسکتے ہیں
اوسیاہ گاؤں کی اس تاریخی یادگار کو مزید اچھے طریقے سے محفوظ کرنا وقت کی ایک ہم ضرورت ہے جس میں ہر خاندان ،ہر فیملی خوشی سے شامل ہوگی۔تاکہ یہ یادگار آنے والی نسلوں تک محفوظ رہ سکے۔
اس پوسٹ میں کسی قسم کی تصیح یا مذید معلومات کے لئیے کمنٹ سیکشن حاضر ہے۔میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں گا۔
اوسیاہ مری۔پاکستان
مورخہ 5 فروری 2024
( اضافی نوٹ۔۔
یہ تحریر پوسٹ ہونے کے بعد اوسیاہ کی بہت عالم فاضل علمی شخصیت ڈاکٹر محمود عباسی DrMahmood Abbasi اور میرے کلاس فیلو Atif Riaz Abbasi کے دو کمنٹ آئے جن میں اس تھم سے متعلق بہت مستند معلومات دی گئی ہیں۔محمود بھائی نے تو مہربانی کرتے ہوئے ان باکس بھی معلومات بھیجی ہیں۔
ان دونوں پڑھے لکھے حضرات کا تعلق اوسیاہ گاؤں میں عین اسی جگہ ہے جہاں یہ تھم ایستادہ ہے۔اس جگہ کو ” دارا ” کہا جاتا ہے۔
ان حضرات کے مطابق واقعی میں اس ستون کی نسبت پوٹھہ والے دادا ملک سورج سے ہے۔
بقول ان دونوں حضرات کے پرانے زمانے میں اوسیاہ میں کسی جھگڑے کی وجہ سے ایک قتل ہوگیا تھا۔قاتل مقتول دونوں کا تعلق اوسیاہ سے تھا۔
اس واقعے کے بعد دادا ملک سورج صاحب اوسیاہ تشریف لائے اور اس جھگڑے کا بحیثیت بزرگ سربراہ فیصلہ کیا۔
اس زمانے میں ہمارے پہاڑی علاقے میں تھانہ کچہری اور پولیس کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اس لئے ایسے تمام معاملات کے فیصلے جرگہ بٹھا کر کئیے جاتے تھے۔۔
جامع مسجد اوسیاہ کا روح پرور منظر
یہ ستون اس فیصلے کی یاد میں اسی قبرستان میں نصب کیا گیا تھا جہاں مقتول کی قبر تھی۔
اس مستند حوالے کے بعد یہ بات تو پکی ثابت ہوگئی کہ یہ ستون صدیوں پرانا ہے اور ایک بزرگ ہستی سے نسبت کی وجہ سے اس کی لکڑی اب تک قائم و دائم ہے۔
ان بیتی صدیوں میں کھلے اسمان تلے سینکڑوں سردیاں ،گرمیاں ، بارش، دھوپ اور برف باری سہنے کے باوجود اس ستون کی لکڑی کی حالت ابھی تک اچھی حالت میں ہے ۔
شائد اس تاریخی یادگار پر دادا صاحب کی سربراھی میں ہونے والے جرگے کے عادلانہ فیصلے کا اثر ہو جس کی وجہ سے یہ آج تک محفوظ ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا فیصلہ ہوا تھا۔اس بارے کوئی تاریخی معلومات نہیں مل سکی ہیں۔اللہ کی ذات سب سے بہتر جاننے والی ذات ہے۔
شنید ہے کہ یہ ستون بھی دادا صاحب خود ساتھ لائے تھے۔۔
ڈاکٹر صاحب کے بقول انہوں نے بچپن سے اس ستون کو مختلف حالتوں میں دیکھا۔مٹی میں گڑا ہوا۔پتھروں کے چبوترے پر۔۔ زمین پر ترچھا گرا ہوا دیکھا۔اور آخر میں آج کل کے مطابق سیمنٹ والے چبوترے پر۔اسی میدان میں ذوالفقار چچا کے گھر کے پاس دو قدیم قبر نما نشست گاہ کے نشان ہیں جو کنیاٹ ( بھربھرے پتھر) سے بنائے گئے تھے۔یہ کسی بزرگ کی چلہ گاہ ہے یا قدیم قبریں ہیں کچھ کہنا مشکل ہے۔ڈاکٹر صاحب کے مطابق قدیم زمانے میں اس جگہ یعنی دارا میں جرگے بیٹھا کرتے تھے ۔یعنی یہ علاقہ گاؤں کا مرکز تھا۔پورے خطہ کوہسار کے کئی دیہاتوں میں ” دارا” نام کی بہت ساری جگہیں اب بھی موجود ہیں جہاں قدیم وقتوں میں ان دیہاتوں کی پنچائیت اور جرگے ہوا کرتے تھے۔
عاطف ریاض عباسی کے بقول ستون کے خود چل کر آنے والی بات درست نہیں۔بلکہ عاطف ریاض عباسی کے مطابق عاطف کے دادا جان سردار اسلم خان عباسی مرحوم نے اسے یہ بتایا تھا کہ اس ستون کو جنات اٹھا کر لائے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب
میں ان دونوں حضرات کا بہت مشکور ہوں۔بلکہ اگر کبھی کسی نے اوسیاہ گاوں کی تاریخ لکھی تو وہ بھی ان حضرات کا مشکور ہوگا۔ہماری نئی نسل بھی مشکور ہوگی)