کتاب ‘فطرت اور ماحول’انسانی سوچ کے درکھولنے والی کنجی

پروفیسر کامران خان۔۔قائد اعظم یونیورسٹی
مضمون نگار تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے
مری سے تعلق رکھنے والے عظیم دانشور محترم حافظ سعید احمد سعود کی معرکتہ الآرا کتاب بعنوان ‘فطرت اور ماحول’ کی تقریب رونمائی مورخہ 4 دسمبر کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں منعقد ہوئی جس میں احباب فکر و دانش نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور مصنف کی خوب حوصلہ افزائی کی۔
اس کتاب نے علمی دنیا میں علم و تحقیق کے کس گوشے کو پُر کیا اور اس میں ایسا کیا ہے کہ اس کتاب کا انتظار گزشتہ بیس سال سے ہوتا رہا۔ آئیے میں آپ کے سامنے اس کتاب کا اجمالی خاکہ پیش کرتا ہوں۔
مصنف نے اس کتاب میں بنیادی طور پر فطرت اور ماحول کے حقیقی مفہوم اور لامتناہی وسعتوں کو سمیٹا ہے اور اس سے بڑھ کر ان عوامل کی نشاندہی کی ہے جن کی وجہ سے انسان اور اس کا گرد و پیش زندگی کو آگے بڑھانے کی سکت سے مسلسل محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ صاحب کتاب نے کمال عرق ریزی سے سامراج اور اس کے مکروہ چہرے پر پڑے مختلف پردوں کو چیر پھاڑ کر اس کی درندگی اور سفاکی کو سب کے سامنے عیاں کیا ہے۔ فطرت کے موضوع پر بہت سے صاحبانِ علم نے لکھا ہے لیکن آج تک کسی نے اس موضوع کو جدلیاتی مادیت کے تناظر میں نہیں دیکھا۔ اکثر لوگوں نے فطرت کے اہم ترین اور ہمہ گیر موضوع کو خاص مذہبی زاویے سے سمجھنے کی کوشش کی یا کسی نے اسے محدود دائرے میں بند ہو کر بیان کیا لیکن محترم حافظ سعید احمد سعود نے اسکی فلسفیانہ اور سائنسی بنیادوں کو جس خوبصورت اندار میں طشت از بام کیا ہے، وہ اس کتاب کا امتیازی وصف ہے۔
اس کتاب میں مصنف نے فلسفہ کے موضوع کو علمی موشگافیوں سے نکال کر اسے کسی بھی چیز کے جواز اور عدم جواز کے تناظر میں پیش کیا جس کی وجہ سے انسانی سماج میں موجود مختلف رجحانات، باہمی تضادات، سماجی حرکیات اور اس کے ارتقائی مراحل کی بنیادوں کو معلوم کرنا اس کتاب کے قارئین کیلیے آسان ہو گیا۔ اسی طرح انسانی شعور اور اسکے ماحول میں موجود تغیر پزیری کو سائنسی انداز سے بیان کرنا اس کتاب کا امتیازی وصف ہے۔ انسان نے اپنے ماحول پر اور ماحول نے انسانی زندگی میں جو تغیر و تبدل پیدا کیا، ان کے مربوط مطالعہ سے ہی ہم سمجھ سکتے ہیں کہ آیا ہمارا سماج ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے یا روبہ زوال ہے۔
مصنف کا ایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ اس نے قارئین کے اذہان پر پڑے تقدس کے دبیز پردوں کو چاک کر کے اسے ٹھوس مادی حقائق کی بنیادوں پر سوچنے کی دعوت دی ہے۔ انسانی سماج میں جو بھی ہو رہا ہے اس کی وجوہات کو آسمانوں میں تلاش کرنے کی بجائے اپنے سیاسی، معاشی اور سماجی عوامل میں تلاش کرنا ہی ہمیں احمقوں کی جنت سے نکال کر حقیقی دنیا میں لا سکتا ہے۔
حافظ سعید احمد سعود نے ‘ماحول’ کو فطرت پر پڑنے والے اثرات کے تناظر میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ہر وہ سوچ، عمل، رویہ، پیداواری طریقہ، حکمرانی کا ہتھکنڈا آلودگی کہلائے گا جو انسانی سماج کی فطری ارتقاء کے راستے میں رکاوٹ ڈال کر اس کی خوبصورتی کو گہنا دے۔ دنیا کے وسائل پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے سرمایہ داروں نے کس طرح سرمایے کی ہوس میں زہر اگلتی فیکٹریوں کی بہتات، جنگ و جدل سے منافع کمانے کیلیے اسلحہ کی پیداوار ، انسانوں کو غلام بنانے کیلیے ٹیکنالوجی کے منفی استعمال اور وسائل پیداوار پر قبضے کا جواز فراہم کرنے کیلیے مذہب کے استعمال نے دنیا کو جہنم کدہ بنا دیا۔ مصنف نے بتایا کہ عوام سے ظلم کے خلاف مزاحمتی سوچ کو کس فریب کاری کے زریعے ختم کیا جاتا ہے اور عوام کو غاصب طاقتوں کا کیسے مطیع بنایا جاتا ہے۔
کتاب پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے انسانی زندگی، اس کے ارتقاء اور اس پر پڑنے والے اثرات کو کسی مخصوص دائرے میں بند ہو کر سمجھانے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس کی فلسفیانہ اساس اور سائنسی مطالعے کی ناگزیریت پر زور دیا۔ مصنف نے قرآن حکیم کے مفاہیم کو اس طرح بیان کیا کہ گویا یہ کتاب آج ہی نازل ہوئی ہو اور آج کے حالات اس سے زرہ برابر بھی اجنبی نہ ہوں۔ مصنف نے قرآن حکیم کی مختلف اصطلاحات کو قرآن حکیم سے ہی سمجھانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
کتاب پڑھنے کے بعد میں پورے وثوق سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ جس جامعیت سے مصنف نے فلسفہ، فطرت، قدرت، تخلیق، سائنس، ٹیکنالوجی، تخیل، ریاست، سامراج وغیرہ کی اصطلاحات کو بیان کیا ہے، یہ صرف اسی کتاب کا اعجاز ہے۔ مصنف نے موضوع پر اپنے علمی استدلال کو انبیاء کرام کے لازوال تاریخی کردار کے تناظر میں بیان کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام انبیاء کی بعثت کا بنیادی اور اساسی مقصد فطرت انسانی پر سامراجی قبضے کے نتیجے میں پڑنے والے پردوں کو کاٹ پھینکنا تھا۔ فطرت کو آگے بڑھنے کیلئے کسی سمت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ سمت کا تعین خود فطرت کے اندر پیوست ہوتا ہے۔
کتاب کو پڑھ کر مصنف اور دیگر دانشوروں میں ایک فرق یہ بھی واضح ہوتا ہے اور یہی فرق اس کتاب کے مصنف کا سب سے بڑا اثاثہ ہے اور وہ یہ ہے کہ مصنف اپنی بات کو بیان کرنے کیلیے دیگر لوگوں کے خیالات اور آراء کو مستعار نہیں لیتا بلکہ ریسرچ پر سرچ کو ترجیح دیتا ہے۔ اپنی بات کو بیان کرنے کیلیے کسی علمی شخصیت کی عبارت کا سہارا ڈھونڈنے کے علی الرغم علمی اور سائنسی استدلال کو ہی سند مانتا ہے۔ مصنف اس بے رحمی سے رجعت پسندی، قنوطیت پسندی، بنیادی پرستی اور تقدس کے غلاف میں لپٹی جہالت کو پاؤں تلے روندتا ہے کہ علم کا دعویٰ کرنے والے بڑے بڑے نام لایعنی اور فضول بحثوں میں الجھے نظر آتے ہیں۔
یہ کتاب بجا طور پر وہ کنجی ثابت ہو گی جو انسانی زہن کو آزادانہ طور پر سوچنے کے قابل بنائے گی!
The book 'Nature and Environment' is the key to human thought,کتاب 'فطرت اور ماحول'انسانی سوچ کے درکھولنے والی کنجی