کالم شالم ”پہاڑوں کی شہزادی“

کالم شالم   ”پہاڑوں کی شہزادی “

 

FB IMG 1732621069573 1

یہ ستر کی دہائی کی بات ہے، ہماری عمر ابھی پانچ سال تھی۔  ہم نے چلنے والی اشیاء میں فقط “کھوتے یا ڈنگر “ دیکھے تھے۔  ہماری سواری کا شوق ابھی ”منج “ یا کسی ” کھوتے “ پر بیٹھ کر پورا ہوا کرتا تھا۔

یہ پچاس ماڈل جیپ پہلے پہل صوفی عبدالرحمان، جو ہمارے ”گوانڈی“ تھے، لے کر آئے جب نگری میں کچی سڑک بنی۔ چونکہ یہ جیپ ہمارے گھر سے نیچے ”باولی “ کے پاس کھڑی ہوتی تھی سو ہم ”اکھ“ کھولتے ہی اِسے دیکھتے کہ اس کا سٹارٹ ہونا بھی ایک عجوبہ ہوتا تھا۔ سردیوں میں انجن کے نیچے آگ جلائی جاتی، پھر ہینڈل لے کر کلینڈر صاب انجن پھیرتے تب جاکر یہ” رُٹھی رن “ کی طرح مانتی۔  پھر چند سوار لے کر لورہ کی طرف رواں ہوتی۔‌ واپسی پر بوریوں سے لدی ہوتی جب کہ سواریاں بوریوں پر براجمان ہوتیں ہم اور یہ بل کھاتی سڑک پر اٹکھیلیاں کرتی،  لہراتی اور ”کلمے کے کُونکار کڈھتی“ گھر پہنچتی تو اہل خانہ صدقے کے طور پر ”کمّنیاں“ {مکئی کے دانے اُبال کر} یا "بانگی کُکڑ “ پکا کر صدقہ کرتے کہ ۔۔۔۔۔
ساڈا پیا گھر آیا

ہمارا پہلا عشق اِسی جیپ سے ہوا کہ اِس کی سٹارٹنگ دیکھنے میں سکول سے لیٹ ہو جاتے، جِس کی پاداش میں معصوم ہاتھوں پر جیوی صاب کی ”تملیٹھ“ کے نشان ہفتوں رہتے۔ مگر عشق میں اتنا کچھ تو ”برداش“ کرنا نہایت معمولی بات ہے کہ "عشق” بقول شاعر

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

کبھی کبھار اگر استاد محبوب رحمدلی کا مظاہرہ کرتے تو ہم بچوں کو منڈی سے باولی تک بیٹھا لیتے اور ہم سمجھتے ہم نے مریخ سر کر لیا۔‌

وقت کے ساتھ ساتھ اِن امریکی جیپوں کا رواج عام ہوتا گیا۔ مرحوم رستم چاچا عرف پیلٹ استاد نے بھی جیپ خرید لی۔‌ پھر رفتہ رفتہ منڈی میں "جیپ اڈہ” بن گیا. نگری سے لورہ تک چھ میل کا سفر ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوتا حالانکہ پیدل پون گھنٹے میں لوگ پہنچ جاتے تھے۔  مگر پہاڑی کہاوت ”کہوڑا دِکّھی کُھڈان اشناں “ شاید ایسے ہی کسی منظر کو دیکھ کر وجود میں آئی ہو۔

خیر وقت جیسے پر لگا کر اُڑتا گیا۔ ہم بچے نہ رہے، لوگ سچے نہ رہے۔ مگر یہ جیپ کبھی ذہن سے نہ اُتری۔ حالانکہ آج جدید ترین گاڑیوں کا دور دورہ ہے، مگر ہم ماضی پسند آج بھی پرانی سنگتیں، پرانی محبتیں اور عہد رفتہ میں مستعمل چیزیں دیکھ کر خود کو نہیں روک سکتے۔

ہماری ڈرائیونگ کے استاد مرحوم طارق شمیم عُرف مکھناں استاد اور مرحوم اجمل استاد (خدا غریق ِ رحمت فرمائے) کمال ڈرائیور تھے.

یہ جیپ آج بھی مارکیٹ میں کافی مہنگی ہے حالانکہ اِس کے ”ہانڑکُول“ {ہم عمر} لوگوں کی اکثریت دارِ فانی سے کوچ کر چُکی ہے۔ مگر یہ ”نیچھا لوہا “  آج بھی چل رہا ہے۔‌  ہماری طرح یہ عشق ہمارے بچوں میں بھی منتقل ہو چُکا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ہم نے پہلی جیپ بیچ دی تو بچے ناراض ہوگئے۔ پھر "لوڑ لوڑ” (ڈھونڈ) کر تھک گئے تب جا کر یہ پہاڑوں کی شہزادی ملی۔‌  حالانکہ اتنی رقم میں ایک جدید کار مل جاتی جو مقابلتا زیادہ پرآسائش ہوتی، پر کیا کریں ۔۔۔۔  بات وہی کسی مہا پُرش کی ہے کہ "ہم وہ نسل ہیں جو پہلے والدین سے ڈرتے تھے اور اب بچوں سے ڈرتے ہیں”

ایک پنجابی بولی یاد آگئی

جیپاں آ گیئاں کچہریوں خالی
تے سجناں نوں قید بول گئی

یا ہمارا ایک پرانا گیت تھا

کچا جیہا راہ اے تے جیپاں اُتے بیہنے آں
ہک چن ماہی پچھے بڑے دُکھ اساں سہنے آں

اگے چڑھ جاندی روئی والی نہر سوہنیاں
تھانہ لورہ، میرا نگری اے شہر سوہنیاں

یا پھر مادام لتا جی کا سدا بہار گیت

بچپن کی محبت کو دل سے نہ جدا کرنا
جب یاد مری آئے، ملنے کی دعا کرنا

1669864493539 1

شکیل اعوان ۔۔۔۔ ایبٹ آباد 

ایک تبصرہ چھوڑ دو