پہاڑی زبان کو مردم شماری سے قبل مادری زبانوں کے کالم میں شامل کر کے نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے

پروفیسر محمد اشفاق عباسی

(کوہسار نیوز کے لیے انجمن فروغ پہاڑی زبان کے سرپرست اعلی پروفیسر اشفاق کلیم عباسی کی خصوصی تحریر۔ ماں بولیوں سے محبت رکھنے والے احباب سے درخواست ہے کہ اس تحریر کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں)

………………………………………………………..

تاریخ شاہد ہے کہ زبانوں کی بنیاد پر الگ ملک بھی بنتے ہیں۔ پاکستان اور بنگلا دیش اردو اور بنگلا زبانوں کے نام پر ہی وجود میں آئے۔

آمدہ مردم شماری میں مادری زبانوں کے حوالے سے پوٹھوہاری اور پہاڑی زبانیں بولنے والے طبقات میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ محکمہ شماریات سےحاصل شدہ نمونے کے مطابق مردم شماری فارم کے مادری زبانوں کے خانے میں اردو،پنجابی سندھی، پشتو، بلوچی، کشمیری، شینا، سرائیکی، براہوی، ہندکو گوجری، میواتی، کیلاشا، کھوار اور کوہستانی زبانیں شامل ہیں۔

راقم کو کسی بھی مادری زبان کے بولنے والوں کی کم یا زیادہ تعداد سے قطع نظر اس بات پر اصرار ہے اور تعجب بھی ہے کہ پاکستان جیسے ایک کثیرالسانی ملک میں مردم شماری جیسے حساس قومی دستاویزی پروجیکٹ میں زبانوں کی شمولیت، عدم شمولیت یا اخراج کا معیار کیا ہے۔ قومی زبان اردو، صوبائی زبانوں نیز کشمیری اور شینا کے علاوہ ہندکو اور براہوی جیسی بڑی علاقائی زبانیں بولنے والوں کی تعداد بلاشبہ لاکھوں میں ہے جب کہ سرائیکی چاروں صوبوں کے کروڑوں لوگوں کی مادری زبان ہے۔

عددی اعتبار سے پوٹھوہاری زبان راولپنڈی اسلام آباد اور جہلم کے 3 اضلاع کے علاوہ مضافاتی علاقوں میں بھی بولی جاتی ہے۔ جس کے بولنے والے لاکھوں افراد ہیں۔ اس حقیقت کے پیش نظر اس زبان کا درجہ پاکستان کی علاقائی اور مادری زبانوں میں ساتویں یا آٹھویں نمبر پر آتا ہے۔

یہی بلکہ اس سے بھی منفرد معاملہ پہاڑی زبان کاہے۔ یہ زبان حال ہی میں بننے والے ضلع مری کی دو تحصیلوں، مری اور کوٹلی ستیاں، کے علاوہ تحصیل کہوٹہ کے پہاڑی علاقوں، آزاد کشمیر کے دو مکمل اضلاع، سدھنوتی اور راولاکوٹ،  کے علاوہ ضلع باغ کی کثیر آبادی کی زبان بھی ہے۔ یہی پہاڑی زبان خیبرپختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد کی تحصیل ایبٹ آباد کی انداز نصف آبادی اور تحصیل لورہ کی مکمل آبادی کی زبان ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ کوہسار، کشمیر مری اور ایبٹ آباد کی کثیر آبادی، جو ترک سکونت کے بعد بھارا کہو، اسلام آباد اور راولپنڈی کے مختلف علاقوں میں مستقلا آباد  ہے، کی مادری زبان بھی یہی پہاڑی زبان ہے۔ نیز اسلام آباد کے شمالی دیہات کی زبان بھی پہاڑی ہی ہے۔  یوں پنجاب کے اضلاع راولپنڈی اور مری، کشمیر کے اڑھائی اضلاع سدھنوتی، راولاکوٹ اور باغ، خیبرپختونخوا کا آدھا ضلع ایبٹ آباد اور وفاقی دارالحکومت اسلام کی ایک 1/4 آبادی پہاڑی زبان بولتی ہے۔ یوں اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد کسی بھی طرح بیس لاکھ سے کم نہیں ہے۔

قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ مذکورہ تمام علاقوں میں پہاڑی زبان یہاں کے بڑے قبائل ڈھونڈ عباسی، کڑال، سدھن، ستی، دھنیال اور کیٹھوال کی مشترکہ زبان ہے۔ جو قدیم زمانے سے یہی زبان بولتے چلے آئے ہیں۔ لیکن انگریز نے ان آزادی پسند قبائل کو کشمیر، پنجاب اور سرحد کی جغرافیائی اکائیوں میں تقسیم کرکے اپنے سامراجی ایجنڈے کی تکمیل کی۔

پاکستان بننے کے بعد اس علاقے کو یک لسانی مرکز مان کر اسے ایک جغرافیائی اکائی بنانے کی بجائے اسے تقسیم در تقسیم کر کے من پسند نتائج لینےکی کوشش کی گئی۔

آج 2023 کے آغاز میں ہم تمام پہاڑی بولنے والے، وفاقی حکومت اور محکمہ شماریات کو یہ باور کراتے ہیں کہ دنیا بھر کی دیگر متمدن زبانوں کی طرح پہاڑی زبان بھی کوہسار کے جملہ عوام کی جڑت، طاقت رابطے، احساسات اور اقدار کے اظہار کی زبان ہے۔ اسے اس کا جائز مقام دیتے ہوئے مردم شماری سے قبل مادری زبانوں کے کالم میں شامل کر کے اس کا باقاعدہ نوٹی فیکیشن جاری کیا جائے

بہ صورت دیگر کوہسار کے پہاڑی بولنے والے عوام آئینی اور قانونی چارہ جوئی سمیت تمام دستیاب ذرائع کو کام میں لا کر تاریخ ساز احتجاج کریں گے، جس کا انہیں پورا حق حاصل ہے اور جس کی تمام تر ذمہ داری ریاست اور حکومت پر ہو گی۔

پروفیسر محمد اشفاق عباسی
سرپرست اعلی
انجمن فروغ پہاڑی زبان

راشد عباسی۔۔۔ چئیرمین
شکیل اعوان۔۔۔۔۔ صدر
پروفیسر ڈاکٹر عابد عباسی
پروفیسر ڈاکٹر ذاکر عباسی
پروفیسر امجد بٹ
حماد سکندر عباسی
ظہیر احمد عباسی
پروفیسر کامران خان
سردار مسعود احمد آکاش
منیر احمد عباسی (چٹھی موسیاڑی نی)

1669864648328 1

ایک تبصرہ چھوڑ دو