پھاپاں … نامور ادیب سلمن باسط کے نوک قلم سے نکلی ایک انمول تحریر
فرض کو امان کا درجہ دینے والی ایک محنت کش خاتون کی کہانی

میرے ددھیالی گاؤں دوبرجی میں بھی پنجاب کے دیگر دیہات کی طرح طبقاتی تقسیم تھی۔
یہاں کے "کمّی” بھی زندگی بھر کے لیے معاشرتی یا شاید معاشی اعتبار سے نام نہاد اونچی ذات والے لوگوں کی چاکری کرنے پر مجبور تھے۔ فاطمہ کمہارن انہی لوگوں میں سے ایک تھی۔ یہ خاتوں آغاز سے ہی ہمارے گھر سے وابستہ تھی۔ گھر کے تمام کام کاج کرتی، یہیں کھانا کھاتی اور اکثر رات کو بھی یہیں سو رہتی۔ اگرچہ اس کا گھر اسی گاؤں میں چند قدم کی مسافت پر تھا مگر اس نے خود کو ہمہ وقتی خدمت کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔ میرے بچپن میں ہی وہ ایک روز ہمارے پاس کھاریاں کینٹ آ گئی اور پھر اس نے اپنی باقی ماندہ زندگی ہمارے ساتھ گزار ڈالی۔
ہم جس بھی شہر میں منتقل ہوتے رہے، وہ ہمارےساتھ سفر کرتی رہی۔ کھاریاں کینٹ، منگلا ، واہ اور اسلام آباد تک وہ ہمارے ساتھ ہی رہی۔ اس کا نام ایک عرصے تک فاطمہ ہی رہا۔ بہت برسوں بعد ایک روز میرے کم سن بھتیجے ارسلان نے اپنی توتلی آواز میں اسے پھاپاں کہہ کر پکارا۔امی جی نے ارسلان کو نام درست کروانے کی کوشش کی مگر بچے کی کم مائیگی اتنا مشکل نام پکارنے کا یارا نہیں رکھتی تھی۔ فاطمہ کو اس پر اتنا پیار آیا کہ اس نے امی جی کو نام درست کروانے سے روک دیا اور پھاپاں کے نام کو بخوشی قبول کر لیا۔ اس کے بعد سے وہ ہمیشہ کے لیے پھاپاں ہو گئی۔ پھاپاں ایک روایتی دیہاتی خاتون تھی اور اپنے دیہاتی طرزِ زندگی کو ہر حال میں برقرار رکھنا چاہتی تھی۔ اتنے جدید شہروں کا رہن سہن بھی اس میں کوئی تبدیلی لانے سے قاصر رہا۔
اس نے شہر میں آکر تہمد کی جگہ شلوار پہننے کے علاوہ کوئی تغیر قبول نہ کیا۔ نہ بول چال میں، نہ رہن سہن میں اور نہ ہی اپنی سوچ میں۔ ہم میں سے جب بھی کوئی اس کو اپنی ڈگر تبدیل کرنے کا کہتا، امی جی روک دیتیں۔ امی جی کہتیں، ” اسے اپنا طرزِ بود و باش عزیز ہے تو اسے ایسے ہی جینے دو۔ اس نے مجبورا” تمہارے بتلائے ہوئے راستے کو چن بھی لیا تو خوش نہیں رہ سکے گی۔ اسے خوش رہنے دو۔ یہی سب سے اہم ہے۔” ہم امی جی کے استدلال کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے۔ تب پھاپاں کے چہرے پر فاتحانہ مسرّت قابلِ دید ہوتی۔ پھاپاں شہر کے آداب سے واقف ہی نہیں تھی ۔ یہاں آگر بھی دیہاتیوں کی طرح صبحِ کاذب کے وقت بیدار ہو جاتی۔ اپنا بستر سمیٹتی اور کچھ ضروری کام اسی وقت نمٹا لیتی۔ امی جی اور ابا جی نماز کے لیے اٹھتے تو پھاپاں کو پہلے سے بیدار پاتے۔ وہ ان سے بھی پہلے نماز ادا کر چکی ہوتی۔ میں اور بھائی جان ان سب کے بعد فجر کے لیے اٹھتے۔ میری کوشش ہوتی کہ جتنی دیر ممکن ہو، بستر میں مزید گزار لوں مگریہ عیاشی زیادہ دیر نہ چل پاتی اور آخر کار نماز کے لیے اٹھنا ہی پڑتا۔
گرمیوں میں تو یہ کام زیادہ دشوار محسوس نہ ہوتا مگر سردیوں میں تو میرے اور امی جی کے درمیان کافی دیر تک مذاکرات جاری رہتے۔ امی جی مجھے پیار سے نماز کے فضائل اور اللہ میاں کی خوشنودی کے فوائد سمجھاتی رہتیں مگر مجھے تب گرم لحاف میں صرف اپنی نیند کی خوشنودی عزیز ہوا کرتی۔ امی جی کا پیار سرزنش میں تبدیل ہونے لگتا۔ پھر جب ابا جی کی نسبتا” بلند آواز سنائی دیتی تو میں شکست تسلیم کرتے ہوئے باتھ روم میں جا گھستا۔ وضو کر کے نماز پڑھتا اور پھر سے بستر میں گھس جاتا تاکہ سکول جانے سے پہلے نیند کے چند مزید جھونکوں سے فیض یاب ہو سکوں ۔ امی جی میرے سرہانے بیٹھ کر مجھے نماز پڑھنے پر شاباش دیتیں اور میرا منہ چومتیں۔ میں ان کے نرم ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر اپنے رخساروں سے لگا لیتا اور لحاف میں دبک جاتا۔ پھاپاں کو میرے سکول جانے کی ہم سب سے زیادہ فکر ہوتی۔ وہ بار بار مجھے آوازیں دیتی رہتی
۔ کبھی کبھی میں غصّے میں آکر زور سے چلاتا۔ وہ کچھ دیر کو خاموش ہو جاتی مگر پھر سے وہی تکرار شروع کر دیتی، ” اٹھ میرا پتر۔ سکول نوں دیر نہ ہو جاوے۔ چھیتی چھیتی کر” ۔ مجھے تب اس کی اس مسلسل پکار پر بہت غصّہ آتا۔ امی جی کے ڈر سے کجھ بول نہ پاتا تو چہرے پر تیوری چڑھا لیتا۔ میں تیار ہو چکتا تو پھاپاں میرا ناشتہ میرے سامنے میز پر لا رکھتی۔ میں سوتے جاگتے منہ میں ایک نوالہ ڈالتا جو نیند کے غلبے کے باعث دیر تک منہ میں ہی بھٹکتا رہتا۔ ایسے میں مجھ پر مسلسل نظریں جمائے رکھنے والی پھاپاں پھر اپنی گردان شروع کر دیتی۔ مجھے پچکارتی رہتی۔ میرے سر پر چومتی کیونکہ وہ جانتی تھی مجھے اس کا اپنے چہرے پر چومنا پسند نہیں۔ میں ناشتہ کرچکتا تو وہ میرا بیگ میرے کندھے پر ڈال دیتی۔ امی جی میرے گالوں پر الوداعی بوسہ دیتیں اور میں علم کے گہوارے سے اپنا حصّہ لینے چل نکلتا۔
سکول سے لوٹتا تو بھی پھاپاں کو امی جی کے ساتھ ہی اپنا منتظر پاتا۔ وہ مجھے چومنا چاہتی تو میں ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے اپنا چہرہ دائيں بائیں کرتا۔ اپنے بچوں کو گاؤں میں جھوڑ کر آئی ہوئی پھاپاں کی ممتا مجھے دیکھ کر یلغار کرتی تو وہ مجھے اپنے پیار سے نہلا دینا چاہتی مگر میں اس دیہاتی عورت کی ممتا کو قبول نہ کر پاتا۔ وہ کھسیانی سی ہو جاتی، ” ہلہ نہ سہی۔ لے میں سر تے چم لینی آں”۔ امی جی مجھے ہمیشہ اس کے بعد اکیلے میں اس رویے پر درس دیتیں مگر جانے کیوں میں اس سے ہمیشہ دور ہی بھاگتا تھا۔ پھاپاں سارا دن کام میں جتی رہتی۔ برتن دھونا، کپڑے دھونا، گھر کے چھوٹے موٹے کام نمٹاتے رہنا اس کا مشغلہ تھا۔
وہ فارغ نہیں بیٹھ سکتی تھی ۔ جب کوئی کام نہ ہوتا تو سوئی دھاگہ لے کرکسی ایسے کپڑے کو "تروپے” لگانا شروع کر دیتی جسے اس کی چنداں ضرورت نہ ہوتی۔ پھاپاں کی ممتا کبھی ماند نہ پڑی۔ وہ کچھ دن کے لیے بچوں سے ملنے گاؤں جاتی مگر جلد ہی لوٹ آتی۔ ہم بڑے ہو گئے، وہ مزید بوڑھی ہو گئی۔ ہم دونوں بھائیوں کے بچے ہو گئے تو اس کی ممتا ان میں منتقل ہو گئی۔ ہمارے بچوں کے ساتھ بھی اس نے اسی تواتر سے جگانے اور سکول بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ بوڑھی ہوگئی مگر اس کی ممتا کبھی بوڑھی نہ ہوئی۔ اس کے پیار میں وہی وارفتگی رہی جو ہم دونوں بھائیوں کے حصے میں آئی تھی۔ وہ کچھ مہینوں بعد چند دنوں کے لیے اپنے بچوں سے ملنے واپس دوبرجی جایا کرتی تھی۔ ایک بار ایسی گئی کہ واپس نہ آ سکی۔ تمام عمر کام میں جتی رہنے والی اور تھکاوٹ سے ہار نہ ماننے والی پھاپاں جانے کون سے محاذ پر ہار گئی ۔ پھاپاں اپنی زندگی سے چلی گئی مگر ہماری زندگی سے کبھی نہ جا سکی ۔
سلمان باسط