top header add
kohsar adart

پرائمری اسکولوں کی نجکاری کا پہلا فیز اور ڈسٹرکٹ مری کی حالتِ زار

کالم: پروفیسر محسن منشا عباسی

 

ایک مایوس کن اور ظالمانہ اقدام کے تحت، حکومت پنجاب پہلے مرحلے میں کل 48,517 میں سے 13,219 پرائمری اسکولوں کو پرائیویٹائز کرنے کے لیے تیار ہے، جس کی بنیادی وجہ وہ طلبہ اساتذہ کے تناسب کی ناکافی ہونا (STR) بتا رہی ہے۔ مقررہ تناسب 40:1 ہے، لیکن تدریسی عملے کی دائمی کمی کی وجہ سے اس معیار کو حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے جسے حکومت خود برسوں سے پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔

جیسا کہ موجودہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے، مختلف کیڈروں میں تدریسی عہدوں کی ایک حیران کن تعداد خالی ہے: پرائمری اسکول ٹیچرز (PST/ESE) کے لیے 251,612 میں سے 77,166 اساتذہ کی آسامیاں خالی ہیں، ایلیمنٹری اسکول ٹیچرز (EST/SESE) کے لیے 128,198 میں سے 25,076، اور سیکنڈری اسکول ٹیچرز (SST/SSE/DPE) کے لیے 52,259 میں سے 8361، حتیٰ کہ ہیڈ ماسٹرز اور پرنسپلز کے اہم قائدانہ کرداروں میں بھی 7,740 میں سے 4,275 اسامیاں خالی ہیں۔ مناسب اساتذہ کی فراہمی میں کوتاہی کرنے والی حکومت اب کیسے اپنی ذمے داریوں سے منہ پھیر سکتی ہے اور اس عدم توازن کا ذمہ دار سکولوں یا ان کے محنتی اساتذہ کو کیسے ٹھیرا سکتی ہے؟ اس سے بھی زیادہ پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ یہ اسکول کھربوں روپے کی زمین پر کھڑے ہیں — وہ زمین جو ہمارے آباؤ اجداد نے آنے والی نسلوں کی تعلیم کے لیے دل کھول کر تحفے میں دی تھی۔

سکول سٹاف کی چھٹیاں منسوخ

ان اسکولوں کی نجکاری نہ صرف ہمارے بچوں کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیتی ہے بلکہ ہم سے پہلے آنے والوں کی میراث اور قربانیوں سے بھی غداری ہے۔

2019 میں تحریک انصاف کی حکومت میں، محکمہ برائے بین الاقوامی ترقی (DFID) نے پنجاب کے 11 اضلاع کے 110 سکولوں کو ماڈل سکولوں میں تبدیل کرنے کے لیے 35 ملین پاؤنڈز (7 ارب پاکستانی روپے سے زائد) مختص کیے، جو کہ ایک اہم کامیابی ہے۔ پھر تحریک انصاف کی حکومت میں پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو 2000 کلاس رومز کی تعمیر کا کام سونپا گیا، محکمہ سکول ایجوکیشن کا مقصد سرکاری سکولوں میں 2000 کلاس رومز کی تعمیر، لائبریرین اور سائنس اور آئی ٹی ٹیچرز کی صلاحیتوں کو بڑھانا، ضروری سامان اور کتابیں فراہم کرنا اور نیشنل میوزیم آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو سٹیم لرننگ سینٹر میں تبدیل کرنا تھا۔ ماڈل اسکولوں کو فی سیکشن 40 سے 45 طلبا کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا جانا تھا، جس میں وائٹ بورڈز کے ساتھ جدید کلاس رومز، سائنس لیبز، جدید سہولیات کے ساتھ کمپیوٹر لیبز، اور اچھی طرح سے ذخیرہ شدہ لائبریریاں فراہم کرنا شامل تھا۔ اضافی سہولیات میں 1:50 کے تناسب سے واش روم، کھیلوں کے میدان، آرٹ اور موسیقی کے کمرے، ایک حفظان صحت کی کینٹین، طبی اور نماز کے کمرے، اور متنوع سرگرمیوں کے لیے سیکھنے کی جگہیں شامل تھیں۔ جسمانی طور پر معذور طلبا کے لیے بھی سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا کہ ان تک رسائی کو یقینی بنایا جائے گا۔

ہم نے دیکھا ہے، اور میں نے پہلے بھی پی ٹی آئی کی اس وقت کی حکومت میں حکام کی جانب سے ڈیفڈ کے ان فنڈز کے غبن پر ایک مضمون لکھا تھا۔ تاہم، یہ کوئی نئی چیز نہیں تھی، اور اب جو کچھ ہونے جا رہا ہے، یہ بھی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ حکومتیں بین الاقوامی اداروں سے فنڈز لیتی ہیں اور انہیں اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہیں، جس سے عوام کو ان کے بنیادی حقوق خصوصاً تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جتنا پیسہ 77 سالوں میں انٹرنیشنل اداروں نے پاکستان میں تعلیمی "چندے” کے نام پر دیا ہے، اگر اس چندے کو کما حقہ استعمال کیا جاتا تو اس سے آج ہمارے تعلیمی ادارے بین الاقوامی شہرت پا چکے ہوتے۔

لیکن گورنمنٹ آف پنجاب محکمہ اسکول ایجوکیشن کی حالیہ پالیسی کے مطابق ہمارے بہت سے اسکول outsource کیے جا رہے ہیں۔ ہم نے بار بار اور مختلف پلیٹ فارموں پر اس بات کو دہرایا ہے کہ ڈسٹرکٹ مری، پورے پنجاب میں اپنی ایک الگ اور منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں کے اسکول دور دراز کے دیہاتوں اور گوٹھوں میں واقع ہیں، جو اپنی مخصوص آبادی رکھتے ہیں۔ لیکن ان دیہاتوں اور گوٹھوں کی تعداد بڑھائی جا سکتی ہے اور نہ کم ہی کی جا سکتی ہے۔

لیکن یہ ایک حقیقتِ واقعہ ہے کہ وہاں کی جتنی بھی آبادی ہوتی ہے، غربت، بڑی شاہراہ سے دوری اور سہولیات نہ ہونے کے باعث تعلیم حاصل کرنے کے لیے انھی اسکولوں کا رُخ کرتی ہے۔ لیکن یہ افسوس کا مقام ہے کہ اس ظالمانہ اور غیرب کُش نجکاری کے پہلے فیز میں ڈسٹرکٹ مری میں تحصیل مری کے کُل 70 پرائمری اسکولوں میں سے 63 اور کوٹلی ستیاں کے 78 پرائمری اسکولوں میں سے 55 اسکول outsource کر کے پیف اور پیما کے حوالے کیے جا رہے ہیں۔

پنجاب کے سکولوں میں موسم سرما کی تعطیلات کا اعلان

یاد رہے کہ تحصیل مری کے پرائمری اسکولوں میں اساتذہ کی کم سے کم تعداد 189 جبکہ کوٹلی ستیاں میں 165 ہونی چاہیے تھی جبکہ اس پالیسی کے باعث تحصیل مری کے 106 جبکہ کوٹلی ستیاں کے 99 اساتذہ متاثر ہوں گے اور ان کے دور دراز تبادلے کر دیے جائیں گے جہاں ان کے لیے جانا بھی کم و بیش نا ممکن بنا دیا جائے گا۔ یعنی سادہ لفظوں میں یوں کہیے کہ محکمہ اسکول ایجوکیشن اور گورنمنٹ آف پنجاب تحصیل مری کے پرائمری اسکولوں میں گزشتہ کئی برسوں سے 83 اساتذہ کی خالی آسامیوں کو پُر کرنے میں ناکام رہی ہے اور کوٹلی ستیاں میں انھی پرائمری اسکولوں کی 66 خالی سیٹوں پر اساتذہ کرام کو مقرر کرنے سے قاصر رہی ہے اور یوں مجموعی طور پر 149 اساتذہ کی خالی آسامیوں کو کئی برسوں سے پُر نہیں کیا گیا۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کا اس کے سوا اور کوئی مطلب نہیں ہے کہ یہ نجکاری کسی اور وجہ سے نہیں، بلکہ پاکستان میں بدلتی ہوئی سرکاروں کی اٹکھیلیوں، آنکھ مچولی، ایک دوسرے پر الزام تراشی، بہتان طرازی، غفلت، نا اہلی اور نالائقی کی وجہ سے ہو رہی ہے۔

اس لیے کہ جب ڈسٹرکٹ مری کے تمام پرائمری اسکولوں کو کئی برسوں سے 149، یعنی تقریباً ڈیڑھ سو اساتذہ کرام کی تقرریوں سے محروم رکھا جائے گا اور پالیسی 1:40 کی بتائی جائے گی، تو جو غربا کے بچے ان اسکولوں میں پڑھ رہے ہوں گے، وہ ابھی ان کو اسکول چھڑوا دیں گے۔ اس لیے کہ اکثر ایسے اسکول بھی پائے جاتے ہیں جہاں پورے پرائمری اسکول کی چھ سات کلاسوں کے لیے محض ایک استاد میسر ہے اور بعض مقامات پر محض دو۔

جبکہ راولپنڈی اور شہر کے بعض اسکولوں کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے ایسے اسکول پائے جاتے ہیں جہاں اساتذہ کی سر پلس تعداد موجود ہے۔ یعنی ایک ایک سیٹ پر دو دو، تین تین۔ اس سے مراد یہ ہے کہ محکمہ ایجوکیشن اور گورنمنٹ آف پنجاب تقرریاں کرنے اور کل میسر اساتذہ کی تعداد کو اسکولوں میں برابر منقسم کرنے سے قاصر رہا ہے جس کے باعث لوگوں کا اعتماد بھی ان اسکولوں سے کافی حد تک جاتا رہا ہے اور اس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے محکمہ اسکول ایجوکیشن اور گورنمنٹ آف پنجاب۔

اگر STR کا تناسب دیکھا جائے تو وہ 1:40 یعنی ایک استاد پر 40 طلبا بنتا ہے۔ تو برسوں سے 149 اساتذہ کی خالی آسامیوں کو پُر نہ کرنے کا اس کے سوا اور کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ اپنی نا اہلی اور نالائقی کے باعث سرکاروں نے جان بوجھ کر 5960، یعنی ڈسٹرکٹ مری کے کم و بیش چھ ہزار بچوں کو بنیادی آئینی تعلیمی حقوق فراہم کرنے سے محروم رکھا۔ اس ظلم کے بعد اگر سرکار نجکاری کرتی ہے اور سارا الزام اساتذہ پر ڈالنے کی ناکام کوشش کرتی ہے تو یہ وہ جبر ہے جسے قومیں صدیوں تک یاد رکھتی ہیں۔ ایک عام آدمی کی نظر سے بھی دیکھا جائے تو یقیناً آپ اور میں بھی اپنے بچوں کو ایسے کسی اسکول میں داخلہ نہیں دلوائیں گے جہاں چھ سات کلاسوں میں محض ایک یا دو اساتذہ بچوں کو پڑھا رہے ہوں۔ بلکہ اگر ہمارے بچے داخل ہوں گے بھی ہم انھیں ایسے اسکولوں سے نکال لیں گے۔

اس سب کے علاوہ اسکولوں کی نجکاری کے ضمن میں اساتذہ برادری کو جو بڑے بڑے تحفظات ہیں، وہ یہ ہیں کہ اول تو یہ کہ اس سے قبل جو اسکول بھی پیف یا پیما کے حوالے کیے گئے ہیں، آج ان کی کیا حالتِ زار ہے، کیا سرکار نے اس کے متعلق بھی کچھ بتایا ہے؟ دوم یہ کہ جو اساتذہ ان اداروں سے سبکدوش ہو جائیں گے، وہ کہاں جائیں گے اور ان کا کیا مستقبل ہو گا؟ سوم، سرکار یہ کہہ رہی ہے کہ ہم ان اسکولوں کو محض اس لیے پرائیویٹائیز کر رہے ہیں کہ ان میں اساتذہ موجود نہیں ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اور ہمیں اس کا جواب بھی چاہیے کہ ان اسکولوں میں اساتذہ کا تقرر کرنا کیا سرکار کی ذمے داری تھی یا بجائے خُود اساتذہ کی؟

یاد رہے کہ 2018 کے بعد ان اسکولوں میں سرے سے کوئی تقرری ہی نہیں ہوئی۔ چہارم، اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ پرائمری اسکولوں کی نجکاری کے بعد مڈل، ہائی اور ہائیر سیکنڈری اسکولوں کی نجکاری نہیں ہو گی؟ اور بلکہ اس کے بعد آہستہ آہستہ کر کے تمام سرکاری اداروں کی نجکاری نہیں ہو گی؟ کیا بنیادی انسانی حقوق میں 5 سے 16 سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنا آئینِ پاکستان کے مطابق ریاست کی ذمے داری نہیں ہے؟ کیا ریاست کی محض یہی ذمے داری ہے کہ غریب کے بچوں کو ہر طرف سے اور ہر میدان میں محروم کر کے سیاسی، صحافتی، عسکری، سرمایہ دارانہ، عدالتی اور انتظامی محکموں کے بڑے بڑوں کو نوازنا اور ان کو بنیادی انسانی حقوق سے بھی آگے بڑھ کر رہائش، گاڑیاں، پیٹرول، صحت کی سہولیات، اراضیاں، اور دیگر بڑی بڑی سہولیات مُفت مہیا کرنا؟

پنجم، سرکاری اساتذہ کی تو اللہ کے کرم سے کم از کم قابلیت ماسٹرز، بی ایس اور لازمی فنی اور پروفیشنل تعلیم جو ہر استاد کو حاصل کرنا ہوتی ہے وہ بی ایڈ اور ایم ایڈ ہے۔ تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ پیف اور پیما کو دیے جانے والے اسکولوں میں اتنی قابیلت کے حامل اساتذہ کا تقرر کیا جائے گا؟ کیا ان سرکاری اساتذہ نے اسی ملک اور انھی اداروں کو بھاری بھر کم فیسیں ادا کر کے تعلیم حاصل نہیں کی؟ کیا یہ اہل نہیں ہیں اور این ٹی ایس اور پی پی ایس سی کے مشکل ترین ٹیسٹ اور انٹرویو پاس کر کے نہیں آئے؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ان کے متبادل کے طور وہ کون سے فرشتے ہیں جو نجکاری کیے گئے اسکولوں میں نازل کروائے جائیں گے؟

ششم، کیا ہمارے پُرکھوں نے اپنی عربوں کی لاگت کی زمینیں ریاست کو محض اس لیے مفت عطیہ اور ہبہ کی تھیں کہ یہاں اُن کی آنے والی نسلوں کو بے دخل کر دیا جائے گا؟

ہفتم، کیا پیف اور پیما کو دیے جانے والے اسکولوں کے اساتذہ کو بھی وہی انتخابی عمل کی اور اس نوعیت کی دوسری درجنوں ڈیوٹیاں اور ذمے داریاں تفویض کی جائیں گی اور ان کا محاسبہ کیا جائے گا؟

ہشتم، کیا ان اسکولوں میں بھی سرکاری اسکولوں کی طرح مفت تعلیم، مفت کتابیں، مفت بیگ اور دیگر موجودہ، آنے والی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بین الاقوامی سطح کی مفت سہولیات دی جائیں گی؟

ہم جانتے ہیں کہ جو اسکول بھی اس سے پہلے پیف اور پیما کو دیے گئے ہیں، ان کی اکثریب بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ اس لیے کہ وہاں کے انفراسٹرکچر سے لے کر کتابیں، فیسیں، اور دیگر سہولیات فراہم نہیں کی گئیں اور اساتذہ بھی وہ مقرر کیے گئے جو سرکاری اساتذہ سے کم تعلیمی قابلیت اور کم پیشہ وارانہ صلاحیت کے حامل تھے۔ اور یوں وہاں drop-out کا تناسب زیادہ ہو گیا۔

یہ وہ سوالات، تحفظات، اعتراضات اور سرکار کے اقدامات ہیں جن کے پیشِ نظر پنجاب ٹیچرز یونین نے بالعموم اور پنجاب ٹیچرز یونین ڈسٹرکٹ مری نے بالخصوص اس پالیسی کی شدید مخالفت، مزاحمت اور شدید تنقید کرتے ہوئے اس اِعلامیے کا اعلان کیا ہے کہ اگر پالیسی کو واپس نہ لیا گیا تو خواہ ہمیں کتنی ہی بڑی قربانیاں دینا پڑیں، ہم ہر محاذ پر جدو جہد کریں گے اور سخت سے سخت مگر پُر امن احتجاج کریں گے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More