ٹھہرا ہوا بچپن
شمائلہ عزیز ستی

ہر کھیل کا ایک مخصوص وقت ہوتا ہے ،موسم ہوتا ہے ،یہ وقت اور موسم ہماری یاداشت میں محفوظ ہوتے ہیں ۔بدلتی رتوں کے ساتھ ساتھ ہی بچے شعوری و لاشعوری طور پر وہ کھیل کھیلنے لگ جاتے ہیں۔گو کہ زمانے کی بدلتی ہوا نے بہت سے رسم و رواج اور کھیلوں کو متروک کر دیا ہے مگر گاوں میں ابھی بھی دیسی ماحول کی ذرا سی رمق باقی ہے۔پچھلے دنوں بچے یہ ہتھ پنکھے بنا کر اڑانے کی کوشش کر رہے تھے۔بار بار ناکام ہو جاتے سو استانی کے اندر بیٹھی پہاڑن بچی مچل کے باہر آ گئی ۔ذرا سی کوشش سے یاداشت بحال ہوئی بن گئے اور گھومنے بھی لگے۔لگا بچپن لوٹ آیا بڑی ہی تسکین ملی۔بچے دیر تک پنکھے لے کر بھاگتے رہے۔شاید وہ پنکھے کے گھومتے پروں کو دیکھ کر خود کو اڑان بھرتا محسوس کرتے ہونگے۔ایسا ہم سوچا کرتے تھے۔
ہمارے زمانے مکئی کی کٹائی کے بعد یا پھر آمد بہار کے ساتھ ساتھ یہ کھیل کھیلا جاتا تھا۔سورج مکھی کے لمبے ڈنڈوں کے آگے کاغذ کے پنکھے بنا کر وادیوں میں بھاگا کرتے تھے۔ہوا کی سرسراہٹ اور پروں کی گردش ایک ایسا طلسم پیدا کرتی کہ ہم گھنٹوں اس شغل میں گزار دیتے۔جب سڑک گاوں کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہوئی گزر گئی تو خالی سڑک پہ ہتھ پنکھے لے کر بھاگنے کا لطف ہی الگ تھا۔دوستوں کے ساتھ کھیل کے بھی من نہ بھرا تو پہاڑی بچی نے گھر کے کھلے دالان سے اترائی میں بھاگنے کا سوچا۔یہ ڈھلوان نما رستہ ہم بچوں نے شارٹ کٹ کے طور پہ بنا رکھا تھا۔جو محلے کے بیلیوں کی آواز پہ جلد پہچنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔اپنا صحن (کھلاڑہ) پھر آگے نور محمد چچا کے تین کھیت۔۔۔بریک لگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔گھر والے جونہی اپنے کاموں میں مشغول ہوتے۔بندی پنکھا لے کر اس ڈھلوانی رستے پر بھاگنے لگ جاتی۔اب سوچتی ہوں کیا پاگل پن تھا کہ دوبارہ بھاگنے کے لیے اتنی چڑھائی چڑھ کے پھر گھر آتی ،پھر بھاگ کے نیچے پہنچتی۔نہ تھکن نہ اکتاہٹ۔محسوس ہوتا کوئی چڑیا پنکھ پھیلا کے پہاڑوں سے وادیوں کی طرف اڑان بھرتی ہو۔
بس ایسے ہی بے ربط کچے خوابوں میں گم بھاگتے ہوئے ایک دن توازن بگڑ گیا ۔اندھا دھند بھاگنے لگی۔پاوں رکے ہی نہیں ۔رکے بھی تو کھیت کے اختتام پہ چیڑ کے درخت سے ٹکرا کر زمین پہ جا لگی۔سر گھوم گیا۔آنکھیں کھلیں ہی نہ اور جسم حرکت ہی نہ کرے۔کچھ دیر سوچتی رہی کہ شاید میں مر گئی ہوں۔پھر اچانک خیال آیا کہیں پنکھا تو نہیں ٹوٹ گیا۔برق رفتاری سے اٹھ بیٹھی ۔پنکھا اب تک ہاتھ میں سلامت تھا۔شکر کیا۔ساتھ ہی مغرب کی اذان ہونے لگی۔سلیپر ڈھونڈنے لگی جھاڑیوں میں کہ بیک وقت گھر سے کئی آوازیں مجھے پکارنے لگیں۔ہاپنتی کانپتی گھر پہنچی ۔
گھر والے حلیہ دیکھ کر پریشان ہو گئے،منہ ناک سوجے ہوئے ،بال الجھے ،کپڑے ادھڑے ،چپل ایک ،دوسرا غائب ،بازو گھٹنے چھیلے ہوئے۔۔امی ڈانٹنے لگیں کہ کیا کر کے آئی ہو۔مگر دادا دادی صدقے واری گئے۔گلے لگایا۔حلیہ درست کیا۔دوا لگائی۔سب مجھے سمجھا رہے تھے کہ ایسی واہیات حرکت دوبارہ مت کرنا۔۔۔اور میں اپنے درد سے بے نیاز پہلو میں رکھے ہتھ پنکھے کی سلامتی پہ خوش تھی۔دادا کا ہاتھ ماتھے پہ تھا ،دادی پاوں گود میں رکھے بیٹھیں تھیں۔آگ جل رہی تھی۔چائے بن رہی تھی ۔لالٹین کی لو پھڑ پھڑا رہی تھی۔میری نظریں ہتھ پنکھے کے پروں پہ جمی ہوئی تھیں۔مجھے صبح پھر اڑنا تھا ۔۔آنکھوں میں نیند اتر آئی۔میں ہمیشہ کی طرح اس کچے آنگن میں رکھی چھوٹی چارپائی پر ہی سو گئی۔معلوم نہیں وہ جنت ،وہ فرشتہ صورت لوگ ،وہ نیند وہ سکون کہاں گیا۔۔۔۔رہ گئی تو یادیں۔
رانی کی نکی نکی باتیں
شمائلہ عزیز ستی