kohsar adart

ویران مسجد میں پڑی برف کی یخ بستگی!

 

مجھے افسوس ہوا۔
خالی بے چھت مسجد میں سیاحوں نے کوڑا پھینکا ہوا تھا۔
یہ کوئی سنسان مقام نہ تھا۔ نتھیا گلی کی اس جگہ پر، چمکتی دھوپ میں درجنوں لوگ برف پر بھاگ رہے تھے، ہنس رہے تھے، پھسل رہے تھے اور گولے بنا بنا کر ایک دوسرے پر پھینک رہے تھے۔ اکثر لوگ خوشحال تھے۔ سامنے پارکنگ میں گاڑیوں کی قطار لگی ہوئی تھی۔
کوئی بھی مسجد کی طرف متوجہ نہ تھا۔
کچھ دیر پہلے دورُ کی کسی مسجد سے اذان کی آواز تو آئی تھی مگر اس مسجد میں نہ کوئی امام آیا اور نہ مقتدی۔
زیادہ تر لوگوں کی دلچسپی برف کے پہاڑ کے سامنے سیلفیاں بنانے یا گروپ فوٹو کھینچنے میں تھی۔
کچھ فاصلے پر ایک شخص کرسی بیچ میں رکھ کر، بلند آواز میں کسی نوتعمیر مدرسے کے لیے ہر ایک سے چندہ مانگ رہا تھا۔ میں نے کسی کو اسے پیسے دیتے نہیں دیکھا۔
مسجد ایک کونے میں بنی تھی۔ اگر اس پر مسجد کا بورڈ نہ ہوتا تو پتا بھی نہ چلتا کہ یہ مسجد ہے۔
تھوڑا قریب ہوا تو میں نے دیکھا کہ کھنڈر ہوتی مسجد میں، جس کے ستون بھی خستہ حال ہوکر گررہے تھے، پلاسٹک کی دو چٹائیاں برف کے ڈھیر پر سمٹی پڑی تھیں۔
جہاں نمازی کھڑے ہونے تھے، وہاں فرش پر لوگوں نے بھٹے یا چھلی کھاکر پھینکے ہوئے تھے اور کچھ لوگوں نے چائے کافی پی کر مسجد کو ڈسٹ بن سمجھ کر خالی کپ اندر پھینک دئیے تھے۔ میں نے اندر جاکر کچرا اٹھایا اور دوسری طرف کھائی میں پھینک دیا۔
کچھ لوگوں نے مجھے ایک نظر دیکھا،
پھر واپس اپنے موبائل کیمرے میں کھو گئے۔
مسجد کے ساتھ ایک چائے کافی والا اسٹیم کافی بیچ رہا تھا اور دوسری طرف ایک باتھ روم بنا کر عورتوں اور مردوں سے پچاس روپے فی کس کی آمدنی جاری تھی۔
ہر طرف جاری ہنگامے اور ہائو ہوُ کو مسجد کی ویرانی چپ چاپ دیکھ رہی تھی۔
ایمان کی حرارت برف کی تہہ میں دبی ہوئی تھی!

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More