kohsar adart

"وہ پانچواں گھر میرا آخری گھر ہو گا” مستنصر حسین تارڑ

لمحۂ موجود میں یہ گلبرگ کے جے بلاک میں فردوس مارکیٹ کے قریب میں اُس گھر میں ہوں جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا تھا۔ دو کنال کے پلاٹ میں ہم تینوں بھائیوں نے الگ الگ حصے بنائے اور ہم منتقل ہو گئے۔۔۔ میں پچھواڑے میں مقیم ہوں۔۔۔ آج سے تقریباً چونتیس برس پیشتر میں نے اپنے ہاتھوں سے پائن کا ایک بالشت بھر بوٹا لگایا تھا۔۔۔ وہ اب اتنا بڑا ہو چکا ہے کہ دور دور سے دکھائی دیتا ہے اور لوگ حیران ہوتے ہیں کہ پہاڑوں کا یہ درخت لاہور کے گرم موسموں میں کیسے اتنا تناور ہو گیا۔۔۔ اور وہ نہیں جانتے کہ میں تقریباً ہر برس کوہ نوردی کے لئے جب برفیلی بلندیوں پر جاتا تھا تو وہاں سے اس شجر کے لئے برفیلی اور خنک موسموں کے سندیسے لاتا تھا۔۔۔ مجھے اس گھر سے بچھڑنے کا یہی قلق ہے کہ میرے بعد یہ درخت کیسے زندہ رہے گا، سوکھ جائے گا۔ اسی گلبرگ والے گھر میں میرے تینوں بچوں کی شادیاں ہوئیں، اُن کے بچے ہوئے، میرے پوتے، نواسے اور ایک پوتی ہوئی، یہ ایسا برکت والا گھر ہے۔۔۔ اور بس چند روز کی بات ہے جب مجھے اس چوتھے گھر کو بھی نہ چاہتے ہوئے بھی چھوڑ جانا ہے، جہاں میں اور میمونہ بوڑھے ہوئے ہیں اُسے چھوڑ جانا ہے۔
ہولے ہولے سامان منتقل ہو رہا ہے، گھر خالی ہو رہا ہے اور مجھے ہول اٹھتا ہے۔۔۔ یہ طے ہے کہ وہ پانچواں ڈیفنس والا گھر میرا آخری گھر ہو گا اور جب میں وہاں سے منتقل ہوں گا تو اپنے آخری اور ابدی گھر میں منتقل ہوں گا۔۔۔ اور میں بخوشی جاؤں گا کہ میں ایک خوش بخت اور خوش نصیب شخص رہا ہوں، مجھے کچھ غم نہ ہو گا کہ مجھے کالی کملی والے کی جوتیوں کی قربت نصیب ہو جائے گی۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More