نسل نو کا مستقبل کیسے محفوظ بنایا جائے؟
تحریر : راشد عباسی

تلخ نوائی
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم مادیت پرستی کی دوڑ میں اس قدر منہمک ہو چکے ہیں کہ ہم خود سے بچھڑ کر زندہ انسانوں کے بجائے ڈھلتے سائے بن گئے ہیں۔ہم اعلی و ارفع انسانی روایتوں اور قدروں سے لاتعلق ہو کر مادیت پرستی کی دلدل میں پھنس گئے۔
کبھی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ناگزیر تھی۔ جو تعلیمی اداروں میں ہی نہیں بلکہ گھروں اور محلوں میں بھی عام تھی۔ ہم نے تعلیم کو کمرشل بنیادوں پر استوار کر کے تربیت کے پہلو کو نکال باہر کیا۔
کبھی تکریم و توقیر کی بنیاد کردار، شرافت، نیک نامی، علم و فضل، شعور و آگہی اور انسان دوستی جیسے اوصاف ہوا کرتے تھے۔
برے اور بد عنوان لوگوں کو قابل نفرت سمجھا جاتا تھا۔
لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ اب عزت و توقیر کا معیار مالی حیثیت ہے۔ اب حلال، حرام کی تمیز مٹ گئی ہے۔
والدین جب اولاد کی تربیت سے بے پروا ہو جائیں اور مال و اسباب کمانے کے لیے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خاندانی وقار، مشرقی اقدار اور دینی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر اور ان سے بیزار و آزاد ہو کر مغرب کے تتبع میں "آزاد خیالی” کا اشتہار بن جائیں تو سب سے پہلے ان کے والدین کو مجرموں کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔
اصلاح احوال کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کے ساتھ تربیت کے عنصر کو پھر سے جوڑا جائے۔ نئی نسل کے سامنے کوئی عظیم مقصد حیات ہو۔ وہ فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کے لیے اور ستاروں پر کمند ڈالنے کے لیے اقبال کے شاہین بنیں۔
نوجوانوں کے ساتھ ساتھ والدین کی تربیت کو بھی عام کرنا ضروری ہے کیونکہ والدین بچوں کو گھر کا وہ ماحول فراہم کریں گے اور خود ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے تو وہ مقاصد جلیلہ کے حصول کے لیے یکسوئی اور تندہی سے برسر پیکار ہو سکیں گے۔
نوجوانوں کے لیے کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی بھی ازحد ضروری ہے۔ ایک صحت مند دماغ ایک صحت مند جسم کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کا احیاء بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اللہ پاک ہمیں کلمہ حق کہنے اور سننے میں استقامت عطا فرمائے آمین