مری ایکسپریس وے کے ماڈرن ڈاکُو

مری ایکسپریس وے کے ماڈرن ڈاکُو

امجد بٹ

راقم نے اِنسائکلوپِیڈیا میں پڑھا تھا کہ چور اِنتہائی بُزدِل اور کمزور اِنسان ہوتا ہے جو اپنی بُنیادی ضروریاتِ زِندگی پُوری کرنے کے لئے چھُپ کر دُوسروں کی اشیاء کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے تاہم سامنے آنے کی جُرأت نہیں رکھتا ۔ لیکِن جب اُس کی یہ عادت قُدرت کی ڈھِیل کی وجہ سے پُختہ ہونے لگتی ہے تو اُسے حوصلہ مِلتا ہے اور وہ یہی کام سامنے آ کر زبردستی کرنے سے بھی نہیں کتراتا ۔ شاید ایسے ہی حالات و واقعات کے نتائج نے ” چوری اور سِینہ زوری ” کے تلمِیحاتی مُحاورے سے اُردُو زُبان و ادب کو مالا مال کِیا ہے ۔ "چوری اور سِینہ زوری” کے عملی مُظاہرے کو لفظ "ڈکیتی” سے بھی تعبِیر کِیا جاتا ہے اور جو افراد دُوسرے کی جان ، مال اور عِزّت زور زبردستی سے اپنے تصرّف میں لانے کا کوئی بھی ذریعہ اِختیار کریں اُنہیں ڈاکُو کہنے میں کوئی حرج نہیں ۔
کُچھ ایسے ہی مُہذّب ڈاکُوؤں کا ایک واقعہ ایکسپریس وے پر واقع تجاوزاتی ہوٹلوں میں سے ایک پر پیش آیا ۔ 8 اپریل کو دوپہر کے وقت ضِلع مری لوئر بیلٹ کے نامور اور بے باک صحافی ظفر سعِید ستّی اپنی پانچ سالہ معصُوم صاحبزادی ، بیٹے ، دو عزِیزوں اور ایک سرکاری اہلکار کے ہمراہ راولپنڈی جاتے ہُوئے ایکسپریس وے ، لکوٹ کے مقام پر "العباسی ہوٹل و ریسٹورینٹ پر رُکے ، کھانا کھایا اور بِل مانگا تو 2650 رُوپے کا بِل بنایا گیا جو زیادہ محسُوس ہُوا تو پڑتال کر کے ٹوٹل بنانے کو کہا گیا نتیجتہً بِل 2950 رُوپے کا بنا دِیا گیا ۔ جناب ظفر سعِید نے 50 رُوپے "ٹِپ” کے ہمراہ 3000 رُوپے ادا کِیے ۔ پکّا یا مہر لگا بِل مانگا تو اِنتظامیہ نے اِنکار کر دِیا ، ہوٹل ویٹر اور اِستقبالیہ پر بیٹھے ذِمّہ داران ناراض ہونے لگے ۔ ظفر سعِید نے ریسٹورینٹ سے باہر آ کر اِس کی ویڈیو بنانا شُرُوع کی تو شہر یار نامی ویٹر نے ناقابلِ تحرِیر بیہُودہ گالیاں نِکال کر کہا "پانچ مِنٹ میں یہاں سے دفع ہو جاؤ ورنہ تُمہارے کپڑے اُتار دُوں گا” اور کوٹلی ستیاں کے معرُوف ، سرگرم سیاسی راہنُما کو فُون کر کے کہنے لگا "یہ جعلی صحافی ہم سے فری کھانا مانگ رہے تھے آپ اِن کو یہاں سے جانے کو کہیں ورنہ ہم اِن کا حال بُرا کر دیں گے” یہ مذکُورہ سیاسی راہنُما ظفر سعِید ستّی کو بحیثیت سرگرم صحافی گُزشتہ سات سال سے ذاتی طور پر جانتے تھے لہٰذا اُنہوں نے ہوٹل مالکان کی حِمایت کرنے کے بجائے ظفر سعِید ستّی کے بااُصُول اور حقِیقی صحافی ہونے کی تصدِیق کی تو اِن کی اُمِیدوں پر پانی پھِر گیا ۔ ظفر سعِید نے ہوٹل ذِمّہ داران سے کہا ” میں یہاں بیٹھا ہُوں ، جب تک آپ میرے کپڑے نہیں اُتارتے ، میں یہاں سے نہیں جاؤں گا” ریسٹورینٹ کے ذِمّہ داران کے نام یہ ہیں ۔ اِفتخار عباسی ، اورنگزیب عباسی ، وقار عباسی (03161576109) اور افضال عباسی(03165772049) ایسی نازک صُورتحال سے نمٹنے کے لئے اِستقبالیے پر بیٹھے سفید ریش بزُرگ جو پہلے ٹانگیں توڑنے پر آمادہ تھے ، مِنّت سماجت پر اُتر آئے ۔ درج بالا تمام واقعات و کیفیات کے ثبُوت ویڈیو اور تصاوِیر کی صُورت میں موجُود ہیں ۔ مری مال روڈ کے قُرب و جوار میں بھی دال فرائی 600 سے 800 رُوپے میں نہیں مِلتی جبکہ ایکسپریس وے کے اِن "ڈھابہ نُما” ہوٹلوں میں نہ صِرف نرخ طے نہیں ہیں بلکہ اشیاء کے سرکاری نِرخ بھی آویزاں نہیں ہیں اور نہ ہی گاہک کو اپنے ریسٹورینٹ کے نام کا پکّا بِل دِیا جاتا ہے ، جو کہ اُن کا حق ہے ۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اگر اہلِ مری خصُوصاً ہوٹل و ریسٹورینٹ مالکان جب مری کے مقامی افراد کے ساتھ یہ سُلُوک کر سکتے ہیں تو یہاں آنے والے سیّاح کِس کھیت کی مُولی ہیں ؟ البتّہ میدانی شہروں سے آنے والے ایسے جھگڑوں سے مُتاثرہ افراد کو تریٹ کے بعد کہیں بھی لاہور وغیرہ میں کوئی مری وال مِل جائے تو اُس کی "یادگار خِدمت” کی خبریں سُننے میں آتی ہیں۔
راقم یہ سمجھتا ہے کہ ایسے واقعات صِرف مری میں ہی نہیں ہوتے بلکہ دُوسرے شہروں میں اِس سے زیادہ ہوتے ہیں ۔ لیکِن مری کی مرکزی سیّاحتی حیثیت اور سوشل مِیڈیا کی وجہ سے پُورے مُلک میں چرچا عام ہو جاتا ہے ۔ دُوسرا اہم اور زیرِ غور رکھنے کا پہلُو یہ ہے کہ جِس شہر میں دِینی تربِیّت کے ساتھ ساتھ تعلِیمی ، صنعتی اور تجارتی خُوشحالی ہو گی وہاں کے لوگوں کے رویّے بھی شائستہ اور مُہذّب ہوں گے ۔ مری کی اکثریت چُونکہ اِقتصادی اور تعلِیم و تربِیّت کے لحاظ سے پسماندہ ہے لہٰذا اِن کے پتھرِیلے رویّے اور مُعاملات بھی اعلیٰ اقدار کی رُسوائی کا باعث بنتے ہیں ۔ مری کے جو لوگ کراچی ، لاہور اور بیرُون مُلک رہ کر آتے ہیں وہ مذہبی ، سیاسی اور جائیدادی قبضہ مافیا والی سوچ کے حامِل نہیں رہتے ۔
6 اور 7 جنوری 2021ء کی برفانی قیامتِ صُغریٰ نے مرحُومِین کی بے احتیاطی کے باعث جہاں 23 قِیمتی جانوں کا ضیاع کِیا وہاں چند عاقبت نا اندیش ہوٹل مالکان نے مجبُور مُسافروں سے عام ٹھنڈے کمرےکا نہ صِرف 50 تا 70 ہزار رُوپے رات کا کرایہ طلب کِیا بلکہ جِن کے پاس نقد رقم نہ بچی تھی اُن کی خواتِین کے طلائی زیورات بطور ضمانت رہن رکھے ۔ لیکِن یہ چند ظالم ، خُود غرض اور ماڈرن ڈاکُو مری کا اصل چہرہ نہیں تھے بلکہ تحصِیل مری کی شاندار اور باوقار روایات کے حامِل قُرب و جوار کےوہ عام دیہاتی غریب لوگ تھے جو اِن دو راتوں کو دریا گلی اور گُلڈنہ کے درمیان برف میں پھنسے خاندانوں کو نہ صِرف گھروں سے گرم کپڑے اور کھانا لا کر دیتے رہے بلکہ اُنہیں اپنے گھروں میں لیجا کر بطور مہمان ٹھہرایا ۔
20 برس قبل ایکسپریس وے بننے سے پہلے یہاں کی اکثریت مری شہر کے باسیوں کو دُودھ ، لکڑی ، مقامی پھل اور سبزیاں بیچ کر گُزارہ کرتی تھی ، اُن کی شائستہ گُفتگُو ، مُعاملات میں حد درجہ اخلاق اور اِنکساری دیہاتی اقدار کا مُنہ بولتا ثبُوت تھے ، لیکِن سڑک بننے سے یہاں کی زمِینی مالیت میں اِضافے نے اکثریت کو مادی ترقّی کی راہ سُجھائی ، لہٰذا اکثریت (فلسطینیوں کی طرح اپنی زمِینیں بیچ کر) بہارہ کہُو اور دیگر شہروں میں آباد ہو گئی ۔ اب یہاں کی صُورتحال یہ ہے کہ اکثر دُوسرے شہروں کے لوگ یہاں کی زمِینوں اور کوٹھیوں کے مالک ہیں جبکہ اِقتصادی ، اور تعلِیمی طور پر پسماندہ مقامی لوگ اِن کوٹھیوں پر چوکِیداریاں کر رہے ہیں ۔ البتّہ دولت کی دوڑ میں یہاں جوان ہونے والے بچّے اخلاقی اقدار کا پاس کرتے نظر نہیں آتے ۔ اِس کی زِندہ مِثالیں مری میں ہوٹلوں کے وہ ایجنٹ ہیں جِن کے آبائی عِلاقے ایکسپریس وے کی گہرائی میں دُور دُور واقع ہونے کے وجہ سے فروخت نہ ہو سکے لہٰذا بے روزگاری نے اُنہیں نہ صرف مری آنے والے سیّاحوں کی گاڑیوں کے پِیچھے بھاگ بھاگ کر روزی کمانے پر مجبُور کر دِیا ہے بلکہ ہوٹلوں کے حوالے سے سیّاحوں کے ساتھ ہونے والے اکثر دِلخراش واقعات میں اِنہی لوگوں کا نام آتا ہے ۔ سن 2000ء سے پہلے مری میں ہوٹل ایجنٹوں کے جھگڑوں کا خال خال ذِکر مِلتا ہے لیکِن ایکسپریس وے کے بننے کے بعد جب یہاں کے باشِندوں نے مری شہر کے بازاروں کا رُخ کِیا تو مری کے ہوٹل مالکان نے اِن کو کمائی کے لئے بطور ایجنٹ اپنا آلۂ کار بنا لِیا لہٰذا اُن کے تاریخی ، اِقتصادی اور تعلِیمی فُقدان کے مُظاہرے ہم آئے روز مری جی پی او چوک اور قُرب و جوار میں مار کُٹائی کی صُورت میں دیکھتے ہیں ۔ مری شہر اور سابقہ مُلحقہ دیہاتوں کے ہوٹل انڈسٹری سے وابستہ افراد کی وضع داری آج بھی ہمارے مَضبُوط سماجی مراسم کی آئینہ دار ہے ۔
1980ء سے پہلے جب ملکۂ کوہسار مری کو کنکرِیٹ کا شہر بنانے اور قُدرتی مناظر کو ریت اور بجری کی دِیواروں کے پِیچھے چھُپانے کا آغاذ حکُومتی وُزراء اور اُن کے ہم نوالہ و ہم پیالہ اُمراء کی طرف سے ہُوا تو یہاں پر وضع دار اور مُہذّب خاندانوں نے آنا کم کر دِیا اور آج مری کے 500 سے زائد ہوٹلوں کے باعث چند خاندانوں کی عیّاشِیوں کے ساتھ ساتھ یہ شہرِ حُسن و جمال اخلاقی ، سماجی ، سیاسی اور مذہبی آلُودگِیوں کا گڑھ بن چُکا ہے ۔ لیکِن اِس کے باوجُود مری میں ایسے مقامی افراد ، خاندان ، سرکاری افسران ، اور عُلماء کرام موجُود ہیں جِنہیں ہم فخر کے ساتھ مری کا پُر امن اور خُوش نُما چہرہ قرار دے سکتے ہیں ۔
اہلِ مری کو یاد ہو گا کہ ایکسپریس وے بننے کے فوراً بعد سے موٹر وے پولیس کے عملی قیام 2015ء تک تقریباً ہر ماہ یہاں گاڑیاں روک کر چھوٹی بڑی ڈکیتی معمُول بن چُکی تھی ۔ یہاں قارئین کو ایک ذاتی مُشاہدہ بتانے سے پہلے یہ بتانا ناگُزیر سمجھتا ہُوں کہ گُزشتہ چالںیس برس سے شعبۂ تدرِیس سے وابستہ ہُوں اور ہزاروں طلباء و طالبات کا اُستاذ رہنے کا شَرَف حاصِل ہے ۔
2010ء میں جب راقم مال روڈ پر کپڑے کا کاروبار کرتا تھا تو ایک روز اپنی گاڑی میں پِشاور سے کپڑا لے کر واپس مری آ رہا تھا ( اِسی "لکوٹ” گاؤں کے قرِیب جہاں ظفر سعِید ستّی کے ساتھ حادثہ پیش آیا ہے ) کہ رات دو بجے میری گاڑی کو چند نقاب پوشوں نے روکا اور گاڑی کا شِیشہ نِیچے کرنے پر کہا کہ ” صُوفی جے کِج تھیا اے کڈّی شوڑ ، نہ طہ گولی ماری شوڑساں اِیں ” ، مرتا کیا نہ کرتا ؟ جیب میں ہاتھ ڈال کر رقم نِکالنے ہی لگا تھا کہ اِن نقاب پوشوں میں سے ایک کی آواز آئی ” او جمالیا سر اؤراں کی گچھّن دیو ووئے” یہ سُن کر میرے پیروں تلے سے زمِین نِکل گئی کہ میرے شاگِرد مالی طور پر اِتنے مجبُور ہو گئے تھے کہ اُن کے پاس جِینے کے لئے کوئی اور راستہ ہی نہیں بچا تھا یا پھِر ہم والدین اور اساتذہ اپنی ذِمّہ داریوں سے چَشَم پوشی بلکہ حرام خوری کرتے رہے ہیں ۔ میری گاڑی کو تو جانے دِیا گیا لیکن وہ آواز آج بھی میرے کانوں میں گُونج کر میری تدرِیس اور تربِیّت پر ایک سوالیہ نِشان بن کر مُجھے شرمِندہ کرتی رہتی ہے ۔”سر اؤراں کی گچھّن دیو ووئے” نہ معلُوم یہ میری بے لوث تدرِیس کا صدقہ تھا یا اُن ڈاکُو شاگِردوں کے والدین کی تربِیّت کہ میری جان بخشی ہو گئی اور میں آج زِندہ ہُوں ۔
تحصِیل مری ، لوئر بیلٹ ( نیُو مری ) کے لوگ اِس لحاظ سے خُوش قِسمت ہیں کہ وہاں ظفر سعِید ستّی جیسے نڈر اور بے لوث صحافی موجُود ہیں جو قلم کی حُرمت کا سودا نہیں کرتے اور صحافت کو ذاتی مفادات کے لئے اِستعمال نہیں کرتے بلکہ لوئر بیلٹ کے عوام جانتے ہیں کہ عِلاقے کی سڑکوں کی تعمِیر کے لئے فنڈز کی منظُوری اور کام کی نِگرانی ہو یا مجبُور خواتِین و حضرات کی تھانوں اور ہسپتالوں میں دادرسی کا مُعاملہ ہو یا پھِر ماجد ستّی قتل کیس کے سِلسلے میں احتجاجی جلسے میں بھرپُور شِرکت ہو ،(جِس میں معصُوم بیٹی کو کندھوں پر بِٹھا کر شرکت مقصد سے جنُونی وابستگی کے بغیر نامُمکِن ہے ) ظفر سعِید ایک جنُونی بیٹے اور بھائی کی طرح ہر جگہ آپ کو شانہ بشانہ نظر آئے گا ۔
نسیان اور خطا اِنسان کی سرِشت میں شامل ہے ، لہٰذا اگر ظفر سعِید میں اُس کے قریبی لوگوں کو ایک لا اُبالی اور اڑیل شخص نظر آتا ہے تو قریبی دانِشور لوگوں کو پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ اپنے بچّوں کو دینی زیورِ تعلِیم سے آراستہ کرنے والے اِس شخص میں کمزوریوں کے مُقابلے میں اچھائیاں کِتنی زیادہ ہیں ۔ اُس کی خامیوں کو نظر انداز کرتے ہُوئے ، خُوبیوں سے فائدہ اُٹھا کر عِلاقے کی بہتری کے لئے بہت کام لئے جا سکتے ہیں اور ظفر سعِید کا ماضی گواہ ہے کہ اُس نے سیاست دان نہ ہوتے ہُوئے سیاست دانوں سے زیادہ اپنے عِلاقے اور لوگوں کی خِدمت کی ہے ۔ اگر گھر میں کوئی بھائی یا بیٹا خُود سر بھی ہو تو اُس کو طعنے اور طنز کا نِشانہ بنانے کے بجائے اُس کی صاف گوئی اور کِردار کی مضبُوطی کا اعتراف کر کے اُسے عِلاقے اور خاندان کی طاقت بنایا جا سکتا ہے اور ظفر سعِید ستّی میں یہ صلاحیتیں بدرجہ اتم موجُود ہیں ۔

ایک تبصرہ چھوڑ دو