ماں بولی کے حوالے سے احساس کمتری کیوں؟
تحریر :راشد عباسی
صاحب تحریر
پہاڑی زبان جیسی قدیم، پرتاثیر، شیریں اور گہرائی اور گیرائی کی حامل زبان معدومی کے خطرات سے دوچار ہے۔ یقینا یہ ایک بڑا سانحہ ہے. لیکن اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہے کہ ہماری عظیم الشان مادری زبان، جو بہ قول ڈاکٹر نصراللہ ناصر پنجابی سے بھی قدیم زبان ہے، میں ہمارے اجداد نے ضرب الامثال (آخان)، لوک کہانیوں، لوک گیتوں اور شاعری کو جس اعلی معیار و مقام پر لاکھڑا کیا تھا تحریری صورت میں یہ عظیم ورثہ محفوظ نہ رہ سکا۔
نیز یہ بھی المیہ ہے کہ احساس کمتری اور بے اعتنائی کے بہ سبب پہاڑی زبان ہماری نئی نسلوں کی زبان نہیں رہی۔ اس زبان کے چالیس فی صد الفاظ متروک ہو چکے ہیں اور اگر ہماری بے حسی، احساس کمتری اور بے اعتنائی کا یہ سلسلہ جاری رہا تو اگلے تیس سالوں میں مزید چالیس فی صد الفاظ موت کا شکار ہو جائیں گے اور یوں یہ قدیم اور عظیم زبان معدومیت کے قریب ہو جائے گی۔
مجھے عام لوگوں سے کبھی شکوہ نہیں رہا، اس لیے کہ ان کے پاس علم، شعور اور آگہی کی کمی ہے۔ لیکن پڑھے لکھے اور صاحب علم و مطالعہ احباب اگر مادری زبان کی اہمیت سے لاعلم ہوں تو اس سے بڑا کوئی المیہ ہو ہی نہیں سکتا۔
اہل روس کے ہاں سب بڑی بد دعا کیا ہے؟؟؟ "خدا کرے تو اپنی مادری زبان بھول جائے "۔
ہر بچے کی فطری زبان اس کی مادری زبان ہوتی ہے۔ بچہ ماں کی گود میں جو الفاظ سنتا ہے اور جو بے معنی اظہار غوں غاں کی صورت میں کرتا ہے وہ کس قدر فطری اور دل آویز ہے۔ یہی انسان کی مادری زبان ہے۔ مادری زبان پڑھائی نہیں جاتی بلکہ بچہ اسے حاصل کرتا ہے۔ اس لیے مادری زبان کسی بھی فرد کی پہچان کی بنیادی اکائی ہوتی ہے۔ انسان مادری زبان بغیر کسی مشکل کے بتدریج سیکھتا جاتا ہے۔ سکھانے والی ہستی وہ ہے جو سراپا محبت، شفقت اور مامتا ہے اس لیے اس کی آغوش میں مشکل درپیش ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
"دراصل یہ مقدس مائیں ہی تھیں جنھوں نے اپنے لبوں کی مہک، اپنی زلفوں کی خوشبو، اپنی دلائیوں کی سرسراہٹ، اپنے پالنے کی ڈوریاں کھینچنے والے ہاتھوں کے لوچ، اپنی لوریوں کی گنگناہٹوں اور اپنے دودھ کی بتیس دھاروں کے ذریعے ، گونگے بچوں کو زبان سکھانا، زبان چٹانا اور زبان پلانا شروع کردیا۔ جس کا مبارک نتیجہ یہ نکلا کہ زبان بچوں کی ہڈیوں کے گودے تک اتر گئی، ان کے پور پور میں اتر گئی۔ ان کے ہونٹ اور گلوں میں تیر گئی، ان کی رگ رگ میں اس کے جال دوڑ گئے اور وہ ان کے خون میں گردش کرنے لگی”
(جوش ملیح آبادی)
میرے شعری مجموعے "سولی ٹنگی لوء” پر جہاں کوہسار کے علاوہ ہزارہ، پنجاب، پوٹھوہار اور سندھ سے بے شمار تعریفی اور توصیفی پیغامات موصول ہوئے وہیں کوہ مری سے تعلق رکھنے والے ایک عزیز بزرگ دوست کی بات سن کر میری روح تک سکتے میں آ گئی۔ انھوں نے فرمایا
"اتنی معیاری، خوبصورت اور مہنگی کتاب پہاڑی زبان کے بجائے اردو میں چھاپتے ۔ یہ تو آپ نے سراسر نقصان کر دیا”۔
اہل کوہسار کے ہاں یہ عجیب ریت چل پڑی ہے کہ وہ آپس میں بھی اب اپنی مادری زبان میں بات نہیں کرتے۔
اپنے ہی کسی ہم زبان کے ساتھ کسی دوسری زبان میں گفت و شنید کرنا پڑھا لکھا ہونے کی نہیں، احساس کمتری کا شکار ہونے کی دلیل ہے۔
اگر آپ سعودی عرب، ترکی، فرانس ، جرمنی ، اٹلی یا پھر چین جائیں تو وہاں آپ کو ہر انسان اپنی مادری زبان میں ہی بات کرتا ہوا ملے گا۔ دیگر اقوام نے ضرورت کے تحت ایک زبان کے طور پر انگریزی کی طرف توجہ دی ہے لیکن ہماری طرح اپنی مادری زبان کے معاملے میں وہ احساس کمتری کا شکار نہیں ہوئے۔
آپ زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھیے۔ انگریزی میں کامل مہارت حاصل کیجیے۔ بچوں کوبھی انگریزی سکولوں میں ضرور بھیجیے اور انھیں اردو، انگریزی سکھائیے۔ لیکن میں اس امر کے سخت خلاف ہوں کہ بچوں سے ان کی مادری زبان کا حوالہ چھین لیا جائے۔
اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ عدم شعور کے زیر اثر نئی نسل کو مادری زبان کے حوالے سے احساس کمتری کا شکار کیا جائے۔ کل کے معماروں کو اپنی مادری زبان بولنے اور سیکھنے سے محروم کر دیا جائے۔ وہ مادری زبان جس میں صدیوں کی دانش پنہاں ہے۔
یقین جانیے جسے آپ کامیابی کا وسیلہ سمجھ رہے ہیں تباہی کا راستہ ہے۔ شاید نئی نسل کو اپنے آپ سے کٹ کر پیشہ ورانہ مہارت حاصل ہو جائے۔ وہ معاشی طور پر بھی درجہ کمال تک پہنچ جائیں۔ لیکن وہ اپنی روایات، اقدار اور ثقافت سے کٹ کر ایک بہترین انسان بننے کا موقع کھو دیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔
راشد عباسی