"ماضی کا حمام” کا پیش لفظ

میں نے آٹھویں جماعت سے لکھنا شروع کر دیا تھا۔ ہمارے گاؤں کے تقریباً سبھی مرد فوج میں ملازم تھے۔ گاؤں میں پڑھے لکھے لوگوں کا فقدان تھا۔ چنانچہ جب فوجی ملازمین کی جانب سے خطوط آتے تو ان کے والدین انھیں پڑھوانے کے لیے اور اس کا جواب لکھوانے کے لیے قریبی گاؤں کے مولوی صاحب کے پاس جاتے۔ مولوی صاحب کے لیے یہ مفت کی ڈیوٹی بھاری پڑ جاتی تو خط پڑھوانے اور لکھوانے کے لیے کئی کئی دن لگ جاتے۔ چنانچہ وہ ہم سکول کے طلبا سے یہ کام لیتے کہ بیٹا یہ خط پڑھو اور اس کا جواب بھی لکھو۔ مجھے گاؤں میں ’’لکھاری‘‘ اور ’’پڑھاکو‘‘ مشہور کر دیا گیا۔ بسا اوقات گاؤں کی بزرگ خواتین میری بے جی (والدہ) کے پاس سفارش کے لیے چلی آتیں کہ وہ مجھے خط پڑھنے یا لکھنے کا حکم دیں۔ خواتین اکثر اپنے فقروں کے آغاز کو دُہراتی تھیں مثلاً ’’اسے یہ بھی لکھ‘‘، یہ الفاظ وہ ہر فقرے کے ساتھ بولتی تھیں۔ میں اس قسم کی گفتگو کو سنسر کر دیا کرتا تھا۔ قاسم خان کو پوٹھوہاری میں ’’قاشم خان‘‘ ہی بولا جاتا ہے۔ میں اس طرح کی غلطیاں نہیں کرتا تھا۔ الغرض خطوط لکھنے میں یہ میری ابتدا تھی جو آگے چل کر ’’جُھوٹے رُوپ کے درشن‘‘ کی شکل میں اُبھر کر سامنے آئے۔

مضامین لکھنے کا شوق بھی مجھے میٹرک تک لگ چکا تھا۔ میں نے اپنے والد صاحب کے حکم پر محمد بن قاسم کے بارے میں پہلا مضمون نویں جماعت میں لکھا۔ والد صاحب نے مجھے شاباش بھی دی تھی کہ تم نے قاسم کو قاشم نہیں لکھا۔ میری تعلیم پر افتاد یہ پڑی کہ میں نے میٹرک میں سکول کو خیرباد کہہ دیا اور گھر چھوڑ گیا۔ اس دوران میں مجھے مزدوری کرنا پڑی جو مجھ سے نہ ہو سکی، یہ بات درست ہے کہ میں ناز و نعمت میں پلا بڑھا تھا اور یہی پس منظر میری مزدوری کی راہ میں حائل تھا۔ میں نے حیدرآباد سندھ کی فتح ٹیکسٹائل مل میں صرف سات دن تک مزدوری کی۔ یہ دھاگا بننے کا کام تھا۔ لیکن میری انگلیاں دھاگے کی رگڑ برداشت نہ کر سکیں اور سُوج گئیں۔ یہی حال دوسری جگہوں پر ہوا۔

بالآخر میں نے راجہ تاج کو خط لکھا کہ مجھ سے مزدوری نہیں ہو رہی۔ اگر ممکن ہو تو مجھے وائرلیس پولیس میں بھرتی کروا دیں۔ یہ آپ کا محکمہ ہے۔ یہاں آپ کی اچھی جان پہچان ہو گی۔ خدا بخشے مرحوم کو، انھوں نے ریکروٹنگ افسر سے بات کی۔ وہ بھلے آدمی تھے۔ انھوں نے وائرلیس پولیس میں بطور آپریٹر بھرتی کرا دیا۔

میں نے بہاولپور میں وائرلیس کی ٹریننگ لی اور مجھے بلوچستان روانہ کر دیا گیا۔ اس زمانے میں بلوچوں نے علمِ بغاوت بلند کر رکھا تھا۔ میں نے یہاں دو سال گولیوں کی بوچھاڑ میں نوکری کی اور ایک مہینے کی چھٹی پر گھر آ گیا۔ بڑے بھائی راجہ امین صاحب نے مجھ سے استعفیٰ دلوایا اور کہا کہ پہلے اپنی تعلیم مکمل کرو پھر نوکری تلاش کرنا۔ میں نے میٹرک کا امتحان دیا اور میرا سکالرشپ آ گیا۔ میں نے گورڈن کالج میں داخلہ لیا۔ یہاں میں کالج کا سیکرٹری، نائب صدر اور پھر صدر منتخب ہوا۔ میرا بی اے میں بھی سکالرشپ آ گیا۔

میں نے پنجاب یونیورسٹی سے فلسفہ میں ڈگری حاصل کی اور یہاں سے بھٹو مرحوم نے مجھے طلبا اور لیبر کا ایڈوائزر لگا دیا۔ اس عرصے میں مَیں نے چار کتابیں لکھیں۔ بھٹو مرحوم کی پھانسی کے بعد میں ان کے بیٹوں کے بلاوے پر کابل چلا گیا۔ مرتضیٰ بھٹو نے مجھ سے ناراض ہو کر مجھے جیل میں بند کروا دیا۔ میں اڑھائی سال کے بعد رہا ہو کر جرمنی چلا گیا۔

میں نے جیل میں ’’The Tragedy of Afghanistan‘‘ نامی کتاب لکھی جو برطانیہ اور امریکا سے Verso نامی پبلشر نے شائع کی۔ یہ کتاب دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کے شعبۂ افغانستان میں پڑھائی جاتی ہے۔ میں نے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے سات برس تک اس محکمے کو چلایا۔ اب میں ریٹائرڈ ہوں۔ اپنی یادداشتوں پر مبنی کئی کتابیں لکھی ہیں اور اب بھی لکھ رہا ہوں۔

میں نے روزنامہ ’’خبریں‘‘ سے ’’بازگشت‘‘ کے عنوان کے تحت کالم لکھنے کا آغاز کیا۔ جاوید چودھری نے بھی اسی وقت ’’خبریں‘‘ میں لکھنا شروع کیا تھا۔ یعنی ہم دونوں اس فیلڈ میں ایک ساتھ آئے۔ میرا دوسرا اخبار ’’اوصاف‘‘ تھا۔ اُس کے ایڈیٹر حامد میر تھے۔ میں نے ’’دُنیا‘‘ میں بھی لکھا۔ ’’جنگ‘‘ میں بھی مضامین لکھے۔ ان سب اخبارات کی کوئی نہ کوئی تحریر آپ کو اس کتاب میں ضرور ملے گی۔

’’ماضی کا حمام‘‘ میری اخبارات کے لیے لکھی گئی تحریروں کا مجموعہ ہے۔ اسے ادھورا مجموعہ کہہ لیجیے کہ میں نے نہ تو اپنے کالم سنبھال کر رکھے اور نہ مضامین۔ میری بیگم افغانی ہے۔ اس کی مادری زبانیں فارسی اور پشتو ہیں۔ لیکن اُردو سے موصوفہ کو بہت لگاؤ رہا ہے۔ چنانچہ یہ تحریریں جو آپ پڑھ رہے ہیں انھوں نے اخبارات سے کاٹ کر جمع کی ہیں۔

یہ تحریریں پہلے ’’بازگشت‘‘ کے عنوان سے چَھپ چکی ہیں۔ جاوید چودھری کو کتاب پیش کی تو انھوں نے اس پر کالم لکھ دیا۔ وہ کالم موجودہ کتاب کا پیش لفظ بن گیا۔ پہلی اشاعت کے وقت مجھے اسے تسلی سے دیکھنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ اب فرصت کے چند لمحات میسّر آئے ہیں تو ان تحریروں کو ازسرِ نو مرتب کرنے بیٹھ گیا۔ نئی کتاب بن گئی تو نام بھی نیا سوجھا… ’’ماضی کا حمام‘‘۔

میں بک کارنر جہلم کے مینیجنگ ڈائریکٹر جناب امر شاہد کا شُکر گزار ہوں کہ انھوں نے یہ کتاب شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ تحریریں پڑھ کر آپ کو احساس ہو گا کہ ہماری سیاست اور ہماری ریاست آج تک ماضی میں گھوم رہی ہے۔

✍️🏻 راجہ انور

 

ایک تبصرہ چھوڑ دو