kohsar adart

قصہ بیروٹ کی برف کا 

قصہ بیروٹ کی برف کا( جمیل الرحمن عباسی :۲۴ فروری ۲۰۲۵ ء)

پرانا بیروٹ ، ہماری دنیا کا ایک قصبہ تھااور موسمیاتی تبدیلی کا مارا نیا بیروٹ ’’ عالمی گاؤں ‘‘ (گلوبل ویلج ) کا ایک شہر ہے۔ مطیع الرحمن عباسی صاحب نے ’’پرانے بیروٹ ‘‘ کا ذکر یوں کیا ہے:

جہاں بَرفیں بھی پڑتی تھیںجہاں اَولے بھی گرتے تھے

جہاں سیبوں کے باغوں میںمَحبت رقص کرتی تھی

بہرحال نئے بیروٹ میں جنم لینے والی نسل نے موشپوری کی چوٹی پر برف دیکھی ہو تو ہولیکن برفکے ’’ھاڑ ‘‘ چھونے سے وہ قطعا بابلد ہیں۔جبکئی کئی دن کی لگاتار بارشوں سے گھبرا کربڑے بوڑھے کہتے تھے ’’برف ’’ھاڑ‘‘(دریائے جہلم کا پتھریلا ساحل )چھوسی تے بدُل رکسی‘‘ پھر واقعی چاہے تھوڑی دیر کے لیے سہی لیکنبرف دریا تک پہنچتی تو بارشکہیں تھمنے کا نام لیتی۔ہاں یاد آیاایک ہفتے سے زیادہ دورانیے پر محیط بارشیں عام تھیں جو ’’نوروزی‘‘ یا ’’نوروزیاں ‘‘ کہلاتی تھیں ۔ اسیطرحسرد ہواؤں کے تُند وتیز طوفان چلتے جنھیں ’’سوڑھیاں، سوڑھ ، ڈوٹے اور کہم ڈوٹے ‘‘ کہا جاتا تھا ۔ان الفاظ کی شرحفی الحال رہنے دیتے ہیں بس حال یہ تھاکہ مکانان دنوں کچے ہی تھے اور فراز کی بارشوں سے دوستی بھی خوب تھیاور اس نے اس دوستی کا فائِدہ مشہور شعرکہہ کر اٹھایا:

ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فرازکچا تیرامکان ہےکچھ تو خیالکر

لگتاہے کہ فرازپر بڑھاپے کے آثار دیکھ کربارشوںکا التفات کچھ کم ہو چلا تھا تبھی تو اسے کہنا پڑا:

ابر ِبہار اب کے بھی برساپرے پرےگلشن اجاڑ اجاڑ ہیں جنگل ہرےہرے

فراز صاحب کی زندگی تک تو دوستی کا یہ سلسلہ چلتا رہا اوراحمد فراز کو بھی ایسی ہری ہری سوجھتی رہیں لیکن فراز کے جاتے ہی ’’تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے ‘‘کے مصداق بارشوں نے ’’محبت ترک کی میں نے ‘‘پڑھتے ہوئے ’’گریبان سی لیا ‘‘اور اب صورت وہ ہوئی کہ ’’آنکھیں بجھی بجھی ہیں تو چہرے مرے مرے‘‘

۱۹۸۲میں ہمارے علاقے میں ایک شدید اور شاید آخری ’’شدید برفباری ‘‘ ہوئی تھی ۔ میری عمر اس وقتچار سال تھیالبتہ اس موقع کی ایک تصویر ہمارے گھر میں موجود ہے جس میں ہمارے پرانے گھر کی مٹی والی چھت پرہمارے تایا زاد مسکین پاجی مرحوم کھڑے ہیں اور انھوں نے دونوں ہاتھوں میں برف کا ایک بڑاگولہاٹھایا ہوا ہے ۔ استصویر کے بارے میں درست رائے تو ہمارے خاندان کے’’وزیر فوٹو گرافی ‘‘ کلیم بھائی ہی دے سکتے ہیں لیکن بندے کا گمان ہے کہ یہ اسی موقع کی تصویر ہے۔

انھی دنوں ہمارے پھوپھی زاد بھائیحاجی افتخار صاحب آف اوسیاہ کی شادی ہوئی تھی اور ان کی بارات اوسیاہ سےراولپنڈی گئی تھی ۔ ایک موقع پرافتخار بھائی نے خوداس یادگار سفر کا ذکر کیا تھا ، کچھتفصیل حاجی مسعود بھائی نے ذکر کی ۔ ہوا یوں کہ جس دن بارات نے جاناتھا برف باری کی شدت سےٹرانسپورٹمعطل تھی ۔ اس لیے بارات کا طےشدہ دن تو برف کے رکنے کے انتظار میں کٹ گیا۔ طے شدہ دنسے ایک دن بعدبارات روانہہوئی جب کہ برف باری جاری تھی ۔اس کی تفصیل اس سفر کے اہم کردارشبراز ماموں المشہورشبراز استاد نے ہم سے بیان کی جو اس وقت کی مشہور بیڈ فورڈ بس ۸۱۳۳(مملوکہ حاجی سراج صاحب لوئر دیول ) کے ڈرائیور تھے ۔ کہتے ہیں کہ یہ فروری انیس سو بیاسی کا مہینہ تھا ۔ان دنوں بارشوں کا سخت طوفانی سلسلہ جاری تھا ۔ جس دن برف باری کا آغاز ہوا میں مظفر آباد اڈے میں تھا جہاں برف باری شروع ہو چکی تھی ۔ میں نے بس اسٹارٹ کی اوراڈے سے نکلا سواری نام کو نہ تھی ۔ جب میںبینک روڈ پر پہنچا تو یہاں اتنی برف پڑ چکی تھی کہ بس کے ٹائر پھسلنے لگے تھے ۔ بہرحال میںآہستہ آہستہ چل پڑا اور بیروٹ فرشسٹاپ پر پہنچ کر گاڑی پارک کر دی ۔یہ دن میں نے گھر میں گزارا ۔ اگلے دن صبح ہی صبح حاجی عرفان صاحب (ہمارے تایا زاد المعروف حاجی مکھن صاحب ، بانڈی چندال ا سے سجاد صاحب کے والد ) میرے پاس آئے اور کہنے لگے ’’ہمارے پھوپھی زاد بھائی کی شادی ہے ۔ہم نے گذشتہ کلباراتلے کر راولپنڈی جانا تھالیکنبرف کی وجہ سے نہ جا سکے۔آج ہم نے فیصلہ کیا ہےکہ ہر صورت بارات لے کر راولپنڈی جائیں گے ۔آپ ایسا کریں کہ ہماری بارات کو براستہ مظفر آباد ایبٹ آباد ، راولپنڈی لے چلیں ۔‘‘ میں نے حامی بھر لی لیکن کہا کہ ان شاء اللہ ہم براستہ مری ہی چلیں گے۔ ہم نو بجے یہاں سے نکلے ۔ہمارے بیروٹ میںاڑھائی سے تین فٹ برف تھی جب کہ مری میں آٹھ نو فٹ برف پڑچکی تھی ۔ البتہ مشین سے سڑک کی صفائی بھی کی گئی تھی اور ہماری بسسواریوں سے بالکل بھری ہوئی تھی اور وزن کی وجہ سے پھسلاہٹ کاشکار کمکم ہوتی تھی ۔اس لیے ہمارا سفر جاری رہا اور ہمخیریت سے راولپنڈی پہنچ گئے ۔نکاحاور دیگر معاملات کی انجام دہی کے بعد اسی شام واپسی کا سفر شروع ہوا۔ واپسی پر بھی برف جاری تھی ۔لہذا اوپر والی سڑک( خاقان عباسی شہید روڈ) کے بجائے نیچے والی سڑک مری مظفر آباد روڈسے سفر شروع ہوااور رات دس بجے لوئر بیروٹ پہنچے ۔ اب بارات والوں نے کہا کہ کسی طرح ہمیں اوسیاہ تک پہنچائیں ۔ چناں چہ براستہ ملاچھ باسیاں اوسیاہ کی طرف روانہ ہوئے لیکن دیول بازار سے آگے بس نہ جا سکی ۔ سواریوں کو اتارا گیا ، ڈولی بس کی سیٹ سے جوانوں کے کندھوں پردیول سے اوسیاہ کی طرفروانہ ہو گئی۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More