top header add
kohsar adart

فیضان نظر اور مکتب کی کرامت کا امتزاج

فیضان نظر اور مکتب کی کرامت کا امتزاج

ہو اگر ‘خود نگر’ و ‘خود گر’ و ‘خود گیر’ خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
(اقبال)

تعلیم ذہنی، جسمانی اور اخلاقی تربیت کا نام ہے۔ یعنی تعلیم و تربیت کے ذریعے ایک قوم تیار کرنے کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے۔ اسی لیے اساتذہ کو معماران قوم کہا جاتا ہے۔

تعلیم education اور تَعَلُّم learning کے حوالے سے تسلسل کے ساتھ قومی سطح پر مکالمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تعلیم کا یہ فریضہ ہے کہ وہ طالب علم کی صلاحیتوں کا کھوج لگائے اور انھیں نکھارنے کی راہ ہموار کرے۔ تعلیمی نظام ایسا ہو کہ ہر طالب علم کی تربیت اور حوصلہ افزائی ہو تاکہ افراد کی صلاحیتوں کا بھرپور مثبت استعمال ہو سکے۔ ان میں معاملات کا تنقیدی جائزہ لینے کی صلاحیت اور قوت فیصلہ پیدا ہو تاکہ سماج پر تعلیم کے مثبت اثرات مرتب ہوں۔

تعلیم کا مقصد افراد کو فقط آگاہی مہیا کرنے اور ہنرمند بنانے تک محدود نہیں ہے۔ تعلیم ایک فرد کی جسمانی، جذباتی، معاشرتی اور روحانی جہات کے فروغ کے ساتھ ساتھ فکر و دانش کے حوالے سے بھی بالیدگی کا ذریعہ بنتی ہے۔

تعلیم فقط امتحان پاس کرنے اور ڈگری کے حصول کا نام نہیں ہے بلکہ ایک تعلیم یافتہ آدمی وہ ہے جس کا رویہ اور انداز فکر مثبت ہو۔ وہ بامقصد زندگی گزارے۔ سماج کی ترقی اور بہتری میں اپنا کردار ادا کرے۔ نیز وہ حقیقت پسندانہ سوچ کا حامل ہو۔

حقیقی تعلیم جواب ہی مہیا نہیں کرتی بلکہ سوال اٹھانے کے لیے بصیرت بھی عطا کرتی ہے۔ سماجی شعور پڑھے لکھے لوگوں کی بنیادی نشانی ہے۔

تعلیم یافتہ فرد وہ ہے جس میں دوسروں کے جذبات کو سمجھنے اور بانٹنے کی صلاحیت ہو۔ جو نازک سے نازک صورت حال میں بھی احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور عملی طور پر فلاح عامہ پر یقین رکھنے والا ہو۔

ایک تعلیم یافتہ شخص سماجی، معاشی اور ثقافتی تفاوت کو بنیاد بنا کر انسانی قدروں کو پامال نہیں کرتا۔ وہ سماجی انصاف کے لیے عملی طور پر اپنا کردار ادا کرتا ہے۔

آج کے کمیونیکیشن، آئی ٹی، میڈیا، سوشل میڈیا اور تیز رفتاری کے دور میں تعلیم کے تصورات میں بھی بڑی تبدیلی آئی ہے۔ آرٹیفشل انٹیلیجنس نے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ تیز رفتار تبدیلیوں نے اساتذہ کی ذمہ داری کو کئی گنا بڑھا دیا ہے کہ وہ غیر یقینی مستقبل کے بارے تفکر و تدبر کر کے خود کسی حتمی نتیجے پر پہنچیں اور پھر طالب علموں کو صحیح رہنمائی فراہم کریں۔ انھیں شمع علم کا پروانہ بنائیں۔ ان میں تخلیقیت، جدت فکر، سماجی شعور، اخلاقی اور روحانی اقدار اور مسائل کو حل کرنے کا ہنر پیدا کریں۔

 

دنیا عالمی گاؤں بن چکی ہے۔ اب یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ الگ تھلگ رہ کر خوش اور خوشحال زندگی گزار سکیں۔ آپ کو عالمی گاؤں کی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور سائنسی و تکنیکی صورت حال کا شعور حاصل کر کے اس میں اپنے کردار کا تعین کرنا ہو گا۔

آپ کو تفکر و تدبر کرنا ہو گا اور کھوج لگانا ہو گا کہ عالمی سطح پر آپ کی بقا کے لیے کون کون سے خطرات موجود ہیں۔ نیز یہ بھی کہ آپ کے پاس انفرادی اور اجتماعی سطح پر آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے کون کون سے امکانات موجود ہیں۔

ماحولیات کی کیا اہمیت ہے اور کسی ایک خطے میں ماحول دوست یا ماحول دشمن رویے کرہ ارض کو مجموعی طور پر کس طرح متاثر کرتے ہیں۔

تعلیم صحت اور تندرستی کے حوالے سے بھی شعور عام کرتی ہے۔ طالب علموں کو بچپن سے ہی نہ صرف پڑھایا بلکہ سکھایا جاتا ہے کہ صحت و صفائی کیوں ضروری ہے۔ کھیل کود اور ورزش کے کیا فوائد ہیں۔ صحت بخش خوراک کے معاملے میں کوتاہی کے کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔

ہمارے ہاں سب سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ پرائمری تعلیم کو ہم نے بالکل اہمیت نہیں دی۔ حال آنکہ عالمی سطح پر سب سے زیادہ اہمیت پرائمری تعلیم کو دی جاتی ہے۔ وہاں معاشرے کے سب سے ذہین، قابل، تخلیقی صلاحیتوں کے شہکار، ہمدرد، خوش گفتار، خوش لباس اور اعلی کردار کے حامل لوگوں کو ہی اس شعبے میں خدمت کا موقع مل سکتا ہے۔ کیونکہ ایک بچے کی شخصیت کی تشکیل پرائمری تعلیم کے دوران ہو جاتی ہے باقی ساری تعلیم اس کا نکھار ہے۔ اس لیے اس کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری معاشرے کے بہترین، تعلیم یافتہ، مہذب، بااخلاق اور باکردار لوگوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔

ہم بدقسمتی سے "ظاہر پسندی” کے مرض کا شکار ہو گئے ہیں۔ صفائی ستھرائی کا تصور بھی لباس اور تراش خراش تک محدود ہے۔ ہم نے اس حقیقت کو فراموش کر دیا ہے کہ اصل نظافت تو باطن کی پاکیزگی ہے۔ اور تزکیہ کرنے والے کے بارے میں اعلان ہوا کہ بے شک وہ کامیاب ہو گیا۔ ہمارے دوست اقبال قمر نے ہمارے اس المیے کو کس درد مندی سے شعر میں ڈھالا ہے۔۔۔

اپنے شہر کی وہ سب رسمیں ہم نے بھی اپنا لی ہیں
جن میں باطن والوں کا بھی ظاہر دیکھا جاتا ہے

ہمارے سامنے قرآن حکیم، سنت نبوی اور سیرت صحابہ جیسے اعلی و ارفع نمونے موجود ہیں۔ بس انداز فکر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ انھیں فقط متبرک سمجھنے اور ثواب کی نیت سے پڑھنے کے بجائے سمجھ کر اور عمل کرنے کی نیت سے ان کو اپنا رہنما بنا لیں۔

گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
(علامہ اقبال)

کامیاب قوموں نے اعلی اخلاق اور کردار کی بہ دولت دنیا میں باوقار مقام حاصل کیا ہے۔ وہ اپنی تاریخ، ثقافت، زبان اور روایات و اقدار سے جڑے لوگ ہیں۔ اسی لیے ان میں خود اعتمادی ہے۔ کیونکہ وہ اپنی زبان و ثقافت کو اپنی شناخت مان کر اس پر رشک اور فخر کرتے ہیں، اسی لیے نئی نسلوں کو بھی اپنی تاریخ سے غیر مربوط نہیں ہونے دیتے۔

اگر ہمیں زوال کے پاتال میں سے نکلنا ہے تو پھر ہمیں نظام تعلیم کو یکسر بدلنا ہو گا۔ پرائمری تعلیم کے طریقہ تدریس، نصاب اور اہداف میں انقلابی تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔ اساتذہ کو تربیت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ان کو باعزت مقام دینا ہو گا اور ان کو جامعات کے پروفیسروں جیسی سہولیات فراہم کرنا ہوں گی۔

راشد عباسی ۔۔۔۔۔۔۔ ملکوٹ، ہزارہ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More