"غزل”
عبدالرحمان واصف

غزل
یقین بُجھنے لگا اور سکوں تمام ہُوا
وہ حوصلہ جو کبھی تھا فزوں، تمام ہُوا
بِکھر چُکے ہیں محبّت کے بُھر بُھرے سپنے
حواس گُھل گئے غم میں، جُنوں تمام ہُوا
تُجھے پکار کے چُپ ہو گئی ہے گویائی
ہمارا صبر، سرِ دَشت یُوں تمام ہُوا
مِرے نقوش تِرے ہاتھ کے سپرد ہُوئے
مِرے نصیب سے کالا فُسوں تمام ہُوا
نِکھر گئی ہیں کسی رنگ سے یہ دُنیائیں
جو مَلگجا تھا مِرے اندروں، تمام ہُوا
دُہائی دیں گے پہنچ کے یہ لوگ منزلوں پہ
سفر حسین زیادہ تھا، کیوں تمام ہُوا
عبدالرحمان واصف