عمر گزشتہ کی کتاب
تحریر ؛احمد اقبال

اگر تصورمیرا کسی روز ریڈ کلف والی سرحد کسی ویزا پاسپورٹ کے بغیر پار کر جائے۔۔ تو بیس کم سو برسوں کی اور پھر سینکڑوں میل کی مسافت طے کر کے بھی مجھے نانی کا یہ ایک کمرے والا گھراب کہاں ملے گا۔ یہ ایک گھر نقل مطابق اصل ہے..
لیکن میں کبھی کبھی آنکھیں بند کر کے اسے دیکھ اتا ہوں۔ وہاں مجھے پچاس باون سال کی سخت جان ۔ دراز قد اور مضبوط بدن اور سانولی رنگت والی جو عورت ملتی ہے اس کے گلے میں چاندی کی موٹی ہنسلی ہے اورایک ہاتھ میں ویسا ہی میچ کرتا چاندی کا کڑا ہے۔ جب وہ بیوہ ہوئی تو اس کی بہت ساری زمین پر ایک داماد نے قبضہ کر لیا اور اسے گھر سے بھی نکال دیا ۔ اس نے ایک بہرے اور بوڑھے پرانے مزارع سے شادی کی اوررہنے کیلیےؑ اس کے ایک کمرے والے گھر میں آ گئی ۔ پھراس نے اپنی زمینوں کی واپسی کیلیےؑ داماد کے خلاف عدالت میں مقدمہ کر دیا
دوسری جنگ عظیم جاری تھی جب میں اپنی ماں کے ساتھ اس کے”میکے” گیا۔ ۔مجھ سے دو سال چھوٹا ایک بھائی بھی ساتھ تھا۔ ہم اس کمرے کے فرش پر ماں اور نانی کے درمیان چٹائی پر گدے بچھا کے سوئے۔ بالکل ملے ہویے برآمدے میں ایک بھینس رات کوبار بارچلاتی تو نانی جا کے دیکھتی اورواپس آ کے بیٹی سے کہتی ” کچھ نہیں رحمتی”۔ (رحمت آرا میری ماں کا نام )۔ صبح ہوتے ہی ایک شور سے میری آنکھ کھلی۔میری ماں اور اس کی ماں خوشی سے گلے مل رہی تھیں کیونکہ بھینس نے بیٹے کو نہیں بیٹی کو جنم دیا تھا۔
مکھن کے ساتھ باسی روٹی کا ناشتا مجھے اچھا نہیں لگا مگر اماں نے گھور کے دیکھاتو نانی کی بنائی گڑ والی بد مزہ چایے بھی مجھے پینا پڑی۔ تب تک ماں ہمیں بھول کر بھینس اور نوزائیدہ کی خدمت میں لگ گئی تھی ۔ پھر خالہ مبارک باد دینےآ گئی۔ کچھ دیر کی بے کاری نے دوستی کو ہماری ضرورت بنادیا۔ ہم عمر کزن ہمیں کھینچ کر باہرمیلوں پھیلی کھیت کھلیان نہر تالاب کی انوکھی دنیا میں لے گئے جہاں گیدڑ اور سانپ بھی ہمیں دیکھ کر بس گزر جاتے تھے کہ اچھا شہری ہو؟ جاؤ جاؤ ڈرو مت۔
پھر ایک تالاب آگیا۔ دونو کزن ننگ دھڑنگ ہو کے ایک ساتھ گدلے پانی میں کود گئے اور ہم دعوت غسل کو سختی سے مسترد کرتے ہوئےدور کھڑے انہیں مچھلی کی طرح ڈوبتاتیرتا دیکھا کیے ۔ اپنے اجلے نیکر قمیص سے نکل کے ان کی طرح تالاب کے گندے پانی میں اترنا ہمارے لیےایک ناممکن اور شرمناک عمل تھا۔ شام تک ہم نے دشت نوردی کے بعد جنگل کی لومڑی اور گیدڑ میں فرق کرنا جان لیا تھا اور مان لیا تھا کہ شیر اور چیتے سے ملاقات کا کویؑ امکان نہیں۔ ہم جنگلی بیر اور سیب جیسا کوئی پھل کھا کےخود کو ٹارزن محسوس کرنے لگے تھے کہ واپسی میں اچانک بڑے کزن نے چلتے چلتے دوڑ کر ایک سانپ کو دم سے پکڑکر اٹھ لیا جو سامنے سے گزر کے جھاڑیوں میں گم ہونا چاہتا تھا ۔ ہم دہشت سے منجمد ہو گئے لیکن بہادر کزن نے اسے دو چار مرتبہ گھما کے دور ہھینکا تو وہ دم دبا کے بھاگ گیا۔ ہمارے لیےؑ یہ ناممکن بہادری کا کارنامہ تھا ۔ سارا دن جنگل میں بھٹکنے کا جرم سنگین تھا لیکن نانی نے نے ماں کو روک دیا”رحمتی۔ کچھ نہیں ہوا تیرے بچوں کو۔ شور مت کر”
اگلی رات گزررہی تھی جب عجیب سے شور سے میں جاگا۔ باہر سے دھیمے سروں میں میری ماں کے گانے کی آواز آرہی تھی۔۔کیسریا بالما پدھارو مھارے دیس۔۔یہ وہ اکثر گاتی تھی ( اب میں جانتا ہوں یہ راجستھانی لوک گیت ہے)۔۔ میں باہر آیا تو بہت دھندلے صبح کے اجالے میں ماں کو دیکھا۔ وہ فرش پر یوں بیٹھی تھی کہ لٹھے کا سفید غرارہ اس کے گرد پھیل گیا تھا ۔ وہ ایک ہاتھ سے چکی کا پاٹ گھما رہی تھی۔ دوسرے ہاتھ سے وہ مٹھی بھر بھر گندم درمیان میں ڈال رہی تھی۔ چکی کے چاروں طرف گرم سفید آٹا ایک دائرے میں جمع ہو رہا تھا۔
ماں نے مجھے کھینچ کر اپنے ساتھ بٹھالیا ۔ میں مٹھی بھر بھر گندم پاٹ کے بیچ میں ڈالنے لگا۔ پھر گندم ختم ہوگئی تو ہم نے گرم آٹا ایک پرات میں جمع کیا۔ اس وقت تک اجالا زیادہ ہو گیا تھا۔ ماں نے آٹے کو گوندھا تب تک نانی نے زچہ و بچہ بھینس کا طبی معاینہ ختم کر لیا تھا۔ اس نے ایک مٹی کے پیالے میں سفید مکھن میرے سامنے رکھا۔ ماں نے تازہ آٹے کی گرم روٹی دی تو اس کی خوشبو مجھے تازہ ڈبل روٹی کے سلایس سے بہت اچھی لگی۔ میں دو روٹیاں کھا گیا تو ماں نے مجھے اٹھا دیا اور کہا ” کھاتے جارہے ہو۔پیٹ خراب ہو جایے گا پھر؟”
پیٹ خراب نہیں ہوا لیکن دماغ ضرور خراب ہوگیا۔ آج بھی میں اپنے غرور میں کسی سے پوچھ بیٹھتا ہوں۔ "تم نے ماں کے ہاتھ سے پیسےہوئے چکی کے آٹے کی تازہ روٹی کھائی ہے۔؟” ابھی تک مجھے ہاں میں جواب دینے والا نہیں ملا ۔ ایسے بہت ہوں گے مگرمیرے شہر میں نہیں
کسی سرحد پار سے آنے والے نے کراچی کی بھارت پاکستان جنگ کے بہت بعد بتایا کہ نانی پھر بیوہ ہو گئی تھی۔ تیس برس سے زیادہ عرصہ وہ اجمیر کی ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظارکرتی رہی اور بالاخر مر گیؑ۔ یہ بھی نصف صدی پہلے کی خبر ہے۔اب یہ تصویر والا نانی کا گھر آپ بھی دیکھ سکتے ہیں جومیرے تصور میں تھا۔ شاید اس میں بھی میری نانی جیسی کویؑ نانی ہو
۔ یہ نانیاں دادیاں سب ایک جیسی کیوں ہو جاتی ہیں