"عشق اڈاری”

ندیم صدیقی

عشق اڈاری معروف شاعر اور کالم نگار راشد عباسی کی پہاڑی زبان کی نظموں کا مجموعہ ہے۔ سوچ کے دریچے کھولتے اور پہاڑی زبان میں لکھے گئے دیباچے مہڑیاں نظماں،خاب مہڑے کی ایک ایک سطر تفکر اور ریاضت کی غماز ہے۔

لوکاں نَیں دردی شاعر ہمیشاں چَنگے ویلیاں نے خاب دِکھنے تے انسانیت نَیں مَسئلیاں اُپّر غور فکر کرنے رہنے۔ اُنھاں نَیں آسے پاسے ہِک پِہیڑ (بھیڑ، ہجوم) ہونی پَر اُنھاں کی جاننے تے پچھاننے والا کوئی نآء ہونا۔ اِسّے واستے اُنھاں کی کَہل یَتّ (تنہائی) تے ہُسّڑ (حبس) ناں عذاب کَہڑی کَہڑی مارناں رہناں۔ اوہ خاب دِکھنے جے یاء دُنیاں سُوہن یَتّ (خوب صورتی) ناں نمونہ بَنی گَچھّے۔ لوک ہِک دُوئے نَیں دُکھ درد بَنڈنَیں (بانٹنے) والے بَنی گَچھّن۔ کوئی کسے ناں حق نانہہ مارے۔ کوئی کسے کی دُکھ نانہہ دے۔ ہِک دُووئے کی ٹَہائی (گرا کر) تے اَگّیں (آگے) بدھنے نَیں بجائے لوک ہک دُووئے ناں سہارا بَنی گَچھّن۔ "عِشق اُڈاری” نِی آں ساریاں نظماں ہور کَیں وی ناء، بس اِیہے جِیئے خاب تے ایہے جیئاں سَدھراں یاں۔

ادبی رسالے "دستک” کے چیف ایڈیٹر اور ملک کے معروف شاعر اور ادیب محمد آصف مرزا صاحب کا اردو میں مفصل مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

راشد عباسی کی پہاڑی شاعری زندگی اور تصوف کے نوع بہ نوع رنگوں میں ڈوبی شاعری ہے۔ لیکن یہ تصوف وہ نہیں جسے "برائے شعر گفتن خوب است” کہا گیا ہے۔ یہ وہ تصوف ہے جو انسان دوستی، اخوت و مروت، رواداری اور غم گساری، صبر و تحمل، سوز و گداز اور درد مندی و عاجزی کے ملے جلے جذبات سے صورت پذیر ہوتا ہے۔ جو اپنے من کے ساتھ، تن سے بھی گزارا جاتا ہے۔ جو جذبات اور احساسات "عشق اڈاری” کی نظموں میں اول تا آخر بکھرے ہوئے ہیں ان کا بھرپور ناطہ زمین اور زمین زادوں کے ساتھ ہے اور ذرا اور آگے بڑھیے تو یہ تعلق افتادگان خاک کے ساتھ ہے۔ اور جب یہ رشتہ اپنی معراج کو چھوتا ہے تو عشق حقیقی کے اسرار و رموز اپنے آپ کھلنے لگتے ہیں۔

بیک ٹائٹل پر اکادمی ادبیات پاکستان میں اردو کے ایڈیٹر محترم اختر رضا سلیمی کی رائے کوزے میں دریا بند کرنے کی عمدہ مثال ہے۔

"عشق اُڈاری راشد عباسی کی نظموں کا مجموعہ ہے۔ پہاڑی اور اِس نوع کی دوسری زبانیں جن کی ادبی روایت ہنوز ابتدائی مراحل میں ہے، اِن میں نظم لکھنا بہت کٹھن کام ہے۔ غزل میں یہ سہولت ہوتی ہے کہ اگر کوئی اَچُھوتا خیال ہاتھ نہ بھی آئے تو محض تلازمے ملانے سے بھی بات بن ہی جاتی ہے۔ لیکن نظم کے لیے نہ صرف کوئی خیال درکار ہوتا ہے بلکہ اسے شروع سے لے کر آخر تک نبھانا بھی پڑتا ہے۔

اِس سے پہلے پہاڑی کا کوئی باقاعدہ نظمیہ مجموعہ میری نظر سے نہیں گُزرا۔ میں نے پہاڑی میں اتنی زیادہ نظمیں پہلی بار پڑھی ہیں اور میں بیشتر نظموں پر اُنھیں داد "دیے بغیر نہیں رہ سکا

کوہسار کے وہ لوگ جو مادری زبانوں سے محبت کرتے ہیں اور جو تصوف اور روحانیت میں دلچسپی رکھتے ہیں انھیں یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔

 

ایک تبصرہ چھوڑ دو