سانولی کے من میں سفید گلاب ؟

ام عزوہ کا افسانہ

چھن چھن۔۔۔چند چوڑیاں ہی اس کی کلائی پر جل ترنگ بجانے لگیں۔۔۔

اماں نے چونک کر دیکھا تھا۔۔۔بٹیا۔۔۔جس کو گہنوں اور سنگھار سے کبھی الفت نہ رہی تھی اس کے ہاتھوں میں چوڑیوں کی کھنک ۔۔۔اماں بے ساختہ پہلے مسکرائیں۔۔۔کلائی سے ہوتے سانولی کے چہرے پر جو نظر ٹکی، دل میں کھٹکا ہوا آنکھوں میں کجرا چہرے پر الوہی چمک۔۔ اماں کا دل زور سے دھڑکا جوان بیٹی کی خود کی ذات سے بے اعتنائی کے بعد خود پر ہی نظر التفات۔۔۔۔ اماں کا دل کسی نامعلوم جذبے کی گرہیں کھولنے لگا۔۔

سانولی ماں کے خیالات سے بے نیاز کجرے سے بھرے نین کو دیکھ رہی تھی۔ آنکھیں جو اس کے شام جیسے چہرے پر سرمئی چراغ محسوس ہوتی تھیں، سمندر کی طرح گہری کاجل کی لکیر سے اور نمایاں اور غضب ڈھاتی۔۔۔ آئینے پر جیسے صرف آنکھیں تھیں۔اچانک آئینے نے اس کی چھب دکھائی جو اس کے دل کا بادشاہ بن بیٹھا تھا۔۔اس کی ذات میں جمع زرد رنگوں کو قوس قزح سے بدل دینے والا۔۔۔۔۔۔صرف ایک ملاقات کی بدولت۔۔۔  دراز قامت اور خوبصورت بالوں والا۔۔۔جسامت ایسی کی سنہرے بازؤوں میں اگر سانولی کو قید کر لیتا تو سانولی پوری چھپ جاتی۔۔بادامی نینوں کے اوپر جڑے ابرووں کی دلکشی میں وہ کھو گئی تھی۔۔۔آٹوگراف بک ہاتھ میں لیے سامنے کھڑے اپالو کو بس دیکھ رہی تھی۔۔جس کی خوبصورت مونچھوں کے اوٹ سے مسکراتے گلابی ہونٹ ،ستواں ناک پر دھرا چشمہ ،باوقار لہجہ سرخ و سفید بھاری ہاتھ ۔۔ایک باوقار مسکراہٹ کے ساتھ اپنے ارد گرد کھڑے مداحوں کو آٹوگراف دے رہا تھا۔۔

وہ سب سے پیچھے ہو کر بے خود اسے دیکھے جا رہی تھی۔ یوں لگا اس نے اس کی چوری پکڑ لی ہو، ہاتھ بڑھا کر کہا، "لائیے بک دیجیے” وہ ایک دم سے گڑبڑا گئی۔۔

"آٹوگراف چاہیے نا”وہ ایک دم سے جیسے خواب سے حقیقت کی دنیا میں آ گئی ہو۔۔
"جی سر پلیز ۔۔۔”بے ربط جملوں کے ساتھ گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے اس نے کتاب آگے کر دی۔اپنے پسندیدہ مصنف کی کتاب  کی تقریب رونمائی میں وہ سہیلیوں کے ساتھ شریک تھی۔ اور لوگ وہیں موجود اسٹال سے اس کی کتاب دھڑا دھڑ خریدتے، اس کے ہاتھ سے آٹوگراف بھی لے رہے تھے۔۔انہوں نے سانولی کے ہاتھ سے مسکراتے ہوئے کتاب پکڑی ،ایک نظر سانولی کی آنکھوں میں جھانکا اور کتاب کے پہلے خالی صفحے پر کچھ لکھنے لگے۔۔۔جب تک وہ لکھتے رہے سانولی انہیں دیکھتی رہی۔۔انہوں نے کتاب واپس دی۔۔سانولی آنکھوں سے کچھ کہنے کی چاہ کے باوجود صرف شکریہ کہہ کر چل پڑی۔۔۔لیکن اجنبی نظروں کی اس والہانہ حدت کو انہوں نے اپنے وجود پر کافی دیر تک محسوس کیا تھا۔۔
سانولی کے لیے یہ دن تو اس کے خوابوں کی تعبیر کا دن تھا۔۔۔اس چند لمحوں کی ملاقات  پر اس کا جوان خون دھمالیں ڈال رہا تھا۔۔۔
اس نے گھر پہنچ کر بےتابی سے کتاب کھولی، خیال تھا کہ  آٹوگراف کے طور پر سگنیچر ہوگا ان کے ہاتھ کا۔وہ سب کو اپنی کتاب اپنے سگنیچر کے ساتھ دے رہے تھے۔۔لیکن اس کی کتاب میں سگنیچر کے بجائے ایک چھوٹا سا جملہ تھا جو پورے اس خالی صفحے پر نمایاں تھا۔۔۔”خدا ان سرمئی انکھوں کو اپنے خوابوں سمیت ہمیشہ زندہ اور شاداب رکھے”

"افففف۔۔۔انہوں نے مجھے دیکھا ،میری آنکھوں کو پڑھا” وہ دیوانی۔۔ پاگلوں کی طرح بار بار اس جملے کو پڑھنے لگی۔۔۔لگتا لفظ جام بن گئے ہیں۔۔۔جن کا نشہ اس پر چڑھانے لگا ہے۔۔۔جتنی بار  صفحہ کھولتی، خوشی سے مدہوش ہونے لگتی۔۔۔گویا اس کے اردگرد پھول کھلنے لگے ہوں۔۔عجیب والہانہ کیفیت تھی۔۔۔ایک پسندیدہ لکھاری جس کی تحریر اس کے دل کو پہلے ہی گھائل کر چکی ہو ۔جس کا لکھنا اس کے اونچے خواب کی تعبیر ہو ۔جس کی منظر نگاری اس کے تخیل کا حسین آسرا ہو۔۔۔وہ لکھاری۔۔۔اس سے پہلی ملاقات اس کی مردانہ وجاہت۔۔۔ پہلی نظروں میں ہی سانولی کو لگا اس کی ذات کا خیالی پیالہ بھرنے لگا ہو۔۔۔سانولی جو کبھی کسی سے متاثر نہ ہو پائی تھی۔ کسی کی بھی اچھی بھلی شخصیت میں اپنے ہی گمان اور بیان سے کئی ایسے اعتراضات اٹھاتی کہ اماں چڑ کر اس کی شادی کے موضوع کو آئندہ نہ اٹھانے کا کمزور سا فیصلہ کر لیتیں۔۔۔

عجیب ملنگ لڑکی تھی… نہ گہنوں سے سروکار نہ سجنے سنورنے سے ۔کبھی کبھار جو شادی بیاہ کی تقریبات میں جانا بھی پڑتا تو ایک کاجل کے علاوہ اسے کچھ نہ لگانا آتا ۔کاجل بھی آنکھوں پر عرصے بعد یوں لگاتی کہ تقریبا ساری کزنز چھیڑتیں، لگتا ہے آج سرمے کا ٹرک کہیں  الٹ گیا ہے۔۔وہ کھسیانی ہنسی ہستے ہوئے بس انہیں گھورتی رہ جاتی۔۔ کتابوں کی شیدائی اور لوگوں سے بھاگنے والی سانولی۔اماں اس کے لیے فکر مند ہی رہتی تھیں۔ آنے والے رشتوں کو کسی نہ کسی اعتراض سمیت یہ لوٹا دیتی۔ کہیں دل جھکتا ہی نہیں تھا۔ اسے لگتا تھا تخیل کو پڑھ کر خود بھی اچھا لکھنے والی ذرا بھی رومانٹک نہیں ہے۔۔وہ اکثر سہیلیوں سے اترا کر کہتی ‘ میں درخت پر بیٹھے دو کبوتروں کی اٹھکیلیوں اور لاڈ کو بھی اس طرح بیان کر سکتی ہوں کہ اس تحریر میں محبت کی کلیاں پھوٹتی نظر آئیں لوگوں کو۔لیکن میں۔۔۔میری ذات ۔۔۔کبھی محبت کو محسوس نہیں کر سکتی۔۔میرا سرد دل کسی کی آگ میں نہیں دہک سکتا۔۔۔۔

اور پھر وہی سانولی ایک دم سے ایک ملاقات کے زیر اثر ایسی آئی کہ خود ہی خود کی حالت پر حیران رہنے لگی۔۔اخبار میں اس نے دیکھا تھا شہر کے بہت قریب ہی کتاب میلہ ہونے والا ہے, میلے میں ان کی آمد کی خبر دیکھ کر وہ اچھل پڑی۔۔دوسری ملاقات کی امید نے اس کے وجود میں رنگ بھر دیے تھے وہ گنگناتی اٹھلاتی پھر رہی تھی۔شو کیس کی صفائی کے دوران اماں کی لائی ہوئی لال چوڑیوں پر نظر پڑی جو اس نے پہننے سے انکار کر دیا تھا، کسی خیال کی ڈور تھامے وہ چوڑیاں پہننے لگی۔۔۔ان کے لکھے ایک ناول کا سین ذہن میں چلنے لگا۔۔ہیروئین جب ہیرو کی طرف مائل ہوتی ہے تو اس کے کانوں میں چوڑیوں کی کھنک کے ساتھ اپنے ہونے کا احساس پہنچانے کے لیے چوڑیوں سے کلائی کو سجا لیتی ہے۔۔۔۔ جانے وہ کتابوں کی دنیا میں جینے لگی تھی یا خوابوں کی دنیا میں۔۔۔اپنی حالت پر مسکراتے ہوئے آنکھوں میں کجرا بھی ڈال لیا تھا۔۔۔۔دل میں خیال تھا کہ روز ہی کاجل آنکھوں میں ڈال لیا کروں گی تاکہ اس دن امی کو خاص تیاری کا احساس نہ ہو۔۔۔معلوم نہ تھا کہ مائیں وجود کا حصہ ہوتی ہیں ہماری ہر کیفیت کو ہم سے زیادہ سمجھنے والی۔۔اماں اس کے ساتھ سائے کی طرح پھرنے لگیں۔۔۔کون ہے جس نے بنجر دل پر گلاب کھلایا ہے۔۔۔لیکن یہ کیا نہ وہ کہیں جاتی۔۔۔نہ کسی سے ملنے کی تمنا۔۔۔ اپنی دنیا میں مگن اپنے آپ میں مست… اماں حیران تھیں کوئی سرا ہاتھ نہ آتا ۔۔۔

ادھر وہ گن گن کر دن گزار رہی تھی۔۔وہ 15 تاریخ جب بک فیئر میں ان کو آنا تھا۔۔اس نے ان کی کتابوں پر کیے اپنے والہانہ تبصروں کو محفوظ کر لیا تھا۔۔ خیال تھا انہیں وہ یہ تحفتاً پیش کرے گی ۔اور جواب میں فون نمبر کی درخواست ضرور کرے گی ۔اس کی چھوٹی چھوٹی تیاریاں عروج پر تھیں۔۔ ایک دن قبل جب وہ ٹی وی کا فل والیوم کیے گھر کے کاموں میں مگن تھی کہ اچانک ایک خبر پر پورا وجود سماعت بن گیا۔۔۔بک فیئر میں آنے والے مشہور مصنفین کے ناموں کا اعلان کیا جا رہا تھا ساتھ ہی ان کے بارے میں بتایا گیا کہ انہوں نے اپنے آنے کا شیڈول کینسل کر دیا تھا۔۔۔۔کام کرتے ہاتھ ایک دم سے رک گئے وہ بہت دیر سے اسکرین پر نظریں جمائے گم سم کھڑی تھی۔۔۔۔محبت کے رنگوں میں زرد رنگ نمایاں ہو کر چہرے پر پھیلنے لگا تھا۔۔موٹی سرمئی آنکھوں میں سمندر اترنے لگا۔۔دماغ نے بہلایا اری پاگل اگلی کوئی ملاقات آس سہی۔۔۔لیکن دل کی ہچکیاں۔۔۔ سسکاریاں۔۔۔وہ بچوں کی طرح اواز کے ساتھ رونے لگی تھی۔۔۔
اماں کے ہاتھ سر آ گیا تھا۔۔۔اماں نے محسوس کیا کہ سفید گلاب کھلے تو تھے لیکن صحرا میں۔۔

ایک تبصرہ چھوڑ دو