رومیل ہاؤس، انتظار، خیال اور خوشبو

تحریر : خیر زمان راشد

Screenshot 20240813 123828 1

رومیل ہاؤس آف پبلی کیشنز، انتظار ۔۔۔ خیال اور خوشبو

(آج کی کہانی)

میرے حبیب ۔۔۔ یہ رومیل ہاؤس راولپنڈی ہے، ایک بااعتماد اشاعتی ادارہ۔ کتابوں کی اشاعت میں مستعد اور پروفیشنل ۔۔ مجھے رومیل کی اشاعت میں میاں جی کی بائنڈنگ بہت پسند ہے۔ جلد ساز مشاق ہے۔ پروف ریڈر سے شکایت نہیں ۔۔ کتاب کا پیکر قاری کو نہ لبھائے تو مصنف اور قاری کا رشتہ متاثر ہوتا ہے۔۔۔

FB IMG 1723535329603 1

رومیل کی گلی کے بالکل سامنے اشرف بک ایجنسی ہے۔۔ جہاں یہ لوگ دنیا بھر کی اچھی کتابیں بیچتے ہیں ۔لیکن یہ لوگ صرف کتاب فروش نہیں کتاب دوست بھی ہیں ۔۔ مروت اور محبت سے آشنا ۔۔۔

FB IMG 1723535309106
آج منتظم وسیم عباس مصروف تھے۔ ارشد ملک صاحب بھی اپنی سیٹ پر نہ تھے ۔

FB IMG 1723534774633

عزیز اور سعادت مند بچے نے استقبال کیا۔۔ رومیل ہاؤس میں پہنچ کر آپ سوشل میڈیا کی سعادت سے محروم ہو جاتے ہیں (کیونکہ یہاں موبائل سگنلز رسائی سے ایسے ہی دور ہوتے ہیں جیسے پاکستان سے جمہوریت) ۔ سو آپ چاہیں تو کتابیں پڑھیں یا انتطار کا شوق پوار کر لیں۔

سو اب میں کتابوں کے درمیان ہوں لیکن سچ ہے کہ میں دوستوں کے درمیاں ہوں۔۔

FB IMG 1723534407118

یہ راشد عباسی کی کتاب ،،عشق اڈاری ،،رکھی ہے وہ میرے دوست ہیں۔ لیکن میں اپنی کتابیں شائع نہیں کر سکتا۔ کرلوں تو اتنے خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ ممکن نہیں۔۔سو میں اپنے دوستوں کی خوبصورت کتابوں کو اپنا اثاثہ سمجھتا ہوں ۔۔

FB IMG 1723534401714
دوسری کتاب جو میں نے اٹھائی وہ برازیلین چرواہے پاؤلو کی ویلکیریز،، ایک ناول ہے ۔ جادو سحر مہم جوئی اور مہم جو عورتوں کی داستان ہے۔
اس سمے تمہارے خیال کی لہر گذری تو چاہا کہ آپ بھی ایسی ہی بن جائیں۔ مہم جو خطرات سے نہ دبنے والی۔۔پر تم پہلے سے ایسی ہو ۔۔
سو۔ اس مہم جوئی میں بھگوان تمہاری رکھشا کرے ۔۔ گام زن رہو۔۔۔

یہاں چار سمت کتابیں۔۔
سامنے ایک بچہ جو جوانی کی دہلیز کو مسکرا کے دیکھ چکا ہے اور اب اپنے سیل پر کسی سے چیٹ کر رہا ہے۔ وہ مجھے ویلکم کہہ چکا ہے۔ پنکھا اپنی پوری رفتار سے گرم ہوا کا مقابلہ کر کے ہار چکا ہے، اب موسم کی آنکھ سے آنکھ ملا کر مجھ تک وہ پیغام پہنچا رہا ہے۔۔۔ جو ترقی پر گھمنڈ کرتے ہر انسان کو اکثر پہنچا چکا ہے۔۔

"لوگ فطرت سے دشمنی نہ رکھیں. نیچر سفاک بھی ہے اور اس کے پاس کم آپشن ہیں۔۔ یہ دیر سے اور دیر تک سزا دیتی ہے”

میرا سفری بیگ ویراں ہے. ابھی اس میں کوئی کتاب پناہ لے گی، اور یہ مہکنے لگے گا۔ کتاب کا لمس میری کمزوری ہے۔

میں نے کھانا کھا لیا ہے۔ ماش کی دال کی عادت بڑی سستی ہے۔ سو میں کفایت شعاری کی مہم چلاتے ہوئے شام پھر خود کو خسارے کے لیے تیار کر رہا ہوں ۔۔
جن دوستوں سے مل کر خود کو مہمان کہلانے پر غرور کرنا تھا وہ اس مہنگے زمانے کا عیش ہے۔ پیشانی سے دریچہ کھولنے میں بھی قباحت نہیں ۔۔ لیکن مروت میں کی گئی کال کے جواب میں سمارٹ فون کا موڈ مجھ سے بھی زیادہ بگڑا دکھتا ہے !

یہاں میرے سامنے وحید احمد کی نظمیں ہیں. لوگ اس شاعر کو پڑھتے ہیں۔ میرے حسد کے باوجود پڑھتے رہیں گے۔
لوگ حافی زریون کو سنتے ہیں۔ میری چیخوں کے باوجود سنیں گے۔ سوشل میڈیا پر یہ چاہت صاحب آ گئے ہیں۔۔  لوگ چاہت صاحب کو بھی پسند کرتے ہیں۔ میں نہ سننے کی تبلیغ کر کے اپنے حصے کے سامعین انھیں مفت میں نہیں دے سکتا۔  بدو بدی پر ہلکی سی مسکراہٹ کافی ہے۔ کڑھنے سے آرٹ کی قسمت نہیں جاگ سکتی ۔

کبھی کبھی لگتا ہے میری منطق میری انزائٹی کا لیول بڑھا رہی ہے۔۔ پر دنیا کو سدھارنے کی اذیت کس کام کی دنیا تو صرف تخریب کے بعد سدھرتی ہے۔

امید اور نومیدی ہمیشہ کی طرح ساتھ ہے۔ میں اسے گلے سے لگائے حبس کو ہوا اور فقیری کو تونگری میں ڈھلتا دیکھنے کے خواب دیکھنے سے باز نہیں آیا ۔

اب ایک شام میری منتظر ہے ۔۔ شکریہ وسیم عباس۔۔ شکریہ ارشد ملک۔۔ رومیل ہاؤس میں ہم حاضر ہوں تو اپنائیت کا احساس رہتا ہے۔۔

لفظ زاد

ایک تبصرہ چھوڑ دو