top header add
kohsar adart

رزاب بھائی کا "پرنس عدیل”


رزاب بھائی کا پرنس عدیل

میں ان دنوں شاید میٹرک میں تھا۔ چھٹی کا دن تھا۔ ملکوٹ اور متصل دیہات کا موسم خوش گوار تھا۔ میں نے کپڑے تبدیل کیے، بیگ میں کتابیں، ڈائری، پین رکھے اور ننھیال کی طرف چل پڑا۔ ملکوٹ اور آرواڑ متصل گاؤں ہیں۔ ملکوٹ کی آرواڑ کے ساتھ متصل ڈھوک "کھاخوڑیہ ” ہے۔ اس کے بعد آرواڑ کی آبادی شروع ہونے تک درمیان میں چراگاہیں ہیں۔

جب میں کھاخوڑیہ پہنچا تو رزاب بھائی (عبدالرزاق عباسی)، نوید رزاق عباسی کے والد محترم، اپنے گھر کے پاس مل گئے۔ تپاک سے گلے ملے۔۔ جو لوگ ان سے شناسا تھے وہ جانتے ہیں کہ ان کے چہرے پر ایک خلوص بھری مسکراہٹ اور آنکھوں میں ایک طلسماتی چمک ہمیشہ موجود ہوتی تھی۔ انھوں نے زور سے آواز دی ۔۔۔ پرنس۔۔۔۔ ادھر آ تجھے تیرے چچا سے ملواؤں! ایک گول مٹول سا نہایت خوبصورت بچہ، گال دھوپ میں اس درجہ سرخ کہ جیسے خون پھوٹ بہے، کڑھائی والا سفید سوٹ، ہاتھ میں چھروں والی بندوق۔۔۔۔ تیزی سے چلنے کی وجہ سے سانس پھولی ہوئی تھوڑی دور سے نمودار ہوا۔ رزاب بھائی نے بتایا کہ یہ آپ کے راشد چاچو ہیں۔ آپ کا نام کیا ہے؟ میرا نام ہے پرنس عدیل !۔ یہ تھا ہمارے بھتیجے عدیل کے ساتھ پہلا باضابطہ تعارف۔

میں پہلے تعلیمی سرگرمیوں کی وجہ سے گاؤں سے راولپنڈی منتقل ہو گیا۔ پھر کچھ عرصہ سعودیہ میں بہ سلسلہ ملازمت قیام رہا۔ میل ملاقات کا سلسلہ مفقود ہو گیا۔ بچوں کی پڑھائی کے سلسلے میں اخراجات کافی زیادہ تھے اس لیے علمی ادبی سرگرمیاں بھی ترک کر کے ملازمت پر مکمل توجہ مبذول کی۔

ایک عشرہ قبل جب ادبی سرگرمیاں اور خصوصا پہاڑی زبان کے حوالے سے کام شروع کیا تو اپنے علاقے کے احباب اور قریبی عزیزوں سے بھی میل ملاقات کا سلسلہ شروع ہوا۔ "پرنس عدیل” بھی اب ایک نوجوان کے روپ میں ان تقریبات کا حصہ ہوتا۔

عدیل ایک با ادب، ہنس مکھ، بھولا بھالا اور محبت کرنے والا نوجوان تھا۔ اسے اپنی ماں بولی، ثقافت اور علاقے سے شدید محبت تھی۔ ایک بار کہنے لگا جیسے سرائیکی والے اپنے علاقے میں بڑے بڑے مشاعرے کرتے ہیں، ہمیں بھی ایک ایسا پروگرام منعقد کرنا چاہیے جس میں کشمیر، ہزارہ اور مری کے پہاڑی کے سارے شاعر شامل ہوں۔

چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے

جمال احسانی

زندگی کی بے ثباتی تو مسلم ہے اور موت کے اٹل حقیقت ہونے سے بھی کسی کو انکار نہیں۔ جانے والے لوٹ کر نہیں آتے کہ اسرار جہان دیگر ہم پر وا ہوں۔ رفتگاں کو بہرحال اپنے سفر پر روانہ ہونا ہی ہوتا ہے کہ اس سے مفر نہیں، لیکن پس ماندگان کو یہ ہجر پیہم جیتے جی مار دیتا ہے۔ وہ ماں جس کے دو جوان بیٹے اسے دائمی جدائی کے دکھ کے پہاڑ تلے زندہ چھوڑ گئے ہوں وہ سانس تو لے رہی ہوتی ہے لیکن پل پل مر رہی ہوتی ہے۔ کچھ قبریں ہم قبرستانوں میں بناتے ہیں۔ وہ بوسیدہ ہو جاتی ہیں۔ ان کے نقش مٹ جاتے ہیں لیکن وہ قبریں جو سرزمین دل پر بنتی ہیں وہ کبھی بوسیدہ نہیں ہوتیں کیونکہ ہمارے وہ آنسو جو ہماری آنکھوں سے باہر نکلنے کے بجائے اندر کی سمت گرتے ہیں وہ سیدھے انہی قبروں پر گرتے اور انھیں تر و تازہ رکھتے ہیں۔

یار عدیل ۔۔ میرے پرنس۔۔۔۔بہت جلدی کر دی یار۔ تمھیں تو اپنے سفر پر جانا تھا کہ اس سے مفر ممکن نہ تھا۔ اللہ پاک آپ کو بہشت بریں میں آسودہ حیات ابدی عطا فرمائے۔۔۔۔۔۔لیکن یہ دکھ کا پہاڑ۔۔۔۔۔۔۔۔

راشد عباسی ۔۔۔۔۔ ملکوٹ، ہزارہ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More