خصوصی پارلیمانی کمیٹی،رعنا انصار کا نام فائنل کرلیا

نئے چیف جسٹس کی تقرری کیلئے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کیلئے ایم کیو ایم پاکستان نے رکن قومی اسمبلی رعنا انصار کا نام فائنل کر لیا ۔
ایم کیو ایم کی جانب سے رعنا انصار کو خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی رکن نامزد کیا گیا ہے ،رعنا انصار کمیٹی کی ممبر ہونگی چیئرمین ایم کیو ایم نے اسپیکر قومی اسمبلی کو آگاہ کر دیا،ایم کیو ایم کی جانب سے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے لیے تین امیدواروں کے نام فائنل کیے گئے تھے ،خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے لیے رعنا انصار ،فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن کا نام فائنل کیا گیا تھا ،خواجہ اظہار الحسن کے نام پر اعتراضات سامنے آنے پر ایم کیو ایم نے رعنا انصار کو خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا رکن نامزد کر دیا ہے۔
رعنا انصار کا نام اس وقت عالمی افق پر روشن ہوا جب وہ سندھ اسمبلی میں پہلی خاتون قائد حزب اختلاف منتخب ہوئیں ،رعنا انصار نے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز یونین کونسل کی سطح کی سیاست سے کیا اور سیاست کی گلیوں میں 23 برس گزارنے کے بعد وہ اس منصب تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہیں،رعنا انصار اُن بہت سے خواتین میں سے ہیں جو سابقہ فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے متعارف کرائے گئے بلدیاتی نظام کے ذریعے سیاست میں آئیں۔
رعنا کا تعلق سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد سے ہے اور ان کا خاندان تقسیم ہند کے موقع پر اس شہر میں آ کر بسا تھا، ان کا خاندان خواتین کی چوڑیاں بنانے کے کام سے منسلک تھا اور بقول رعنا صدیقی انھوں نے بھی گھر پر یہ کام کیا ہے،رعنا نے بتایا کہ شیسے کو پگھلا کر کارخانے میں چوڑیاں تیار کی جاتی ہیں جبکہ ان کے درمیان جوڑ عموماً گھروں میں خواتین لگاتی ہیں۔ چوڑیوں میں یہ ٹانکا کیروسین آئل اور گیس کی تپش کی مدد سے لگایا جاتا ہے۔
اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں رعنا بتاتی ہیں کہ وہ گھر پر ٹیوشن بھی پڑھاتی تھیں اور یہ وہ وقت تھا جب وہ سیاست کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھیں،وہ کہتی ہیں کہ آس پڑوس سے ان کے گھر آنے والی خواتین نے انھیں مشورہ دیا کہ ’آپ کو الیکشن لڑنا چاہیے،لیکن میں فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔ بلآخر کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا آخری دن آ گیا اور میں نے جا کر یونین کونسل کی عام نشست پر فارم جمع کروایا۔‘ ’مجھے تانگہ انتخابی نشان ملا۔ انتخابی مہم کی غرض سے ہم نے شہر بھر سے تانگے جمع کیے اور خواتین کی اس پر ریلی نکالی۔ یہی وہ موقع تھا جب میں نے پہلی بار تقریر کی۔ اُن دنوں ہمارے علاقے میں ڈسپنسری اور لڑکیوں کے سکول کے مسائل تھے، تو میں نے انھیں ہی اپنے انتخابی ایجنڈے میں سرفہرست رکھا۔‘