kohsar adart

خاموش مددگار…. تحریر شمائلہ عزیز ستی

بڑے بوڑھوں سے سنتے آئے ہیں کہ جب تک دنیا میں مخلوق خدا سے محبت کرنے والے اور نیکی کرنے والے موجود رہیں گے قیامت نہیں آئے گی۔اس پرفتن دور میں جہاں ہر روز ایک نئی قیامت ضغری برپا ہوتی ہے ہمارے لیے قیامت کا نہ آنا بھی ایک قیامت ہے۔آٹے میں نمک کے برابر ہی سہی مگر اچھے کا لوگوں وجود ہے جس کی بدولت دنیا کا نظام چل رہا ہے۔یہ اچھے لوگ کسی اچھے مقصد کے لیے دنیا میں اتارے جاتے ہیں ۔خاموشی اور گمنامی سے اپنا مقصد پورا کرتے ہیں اور پھر اسی سکون سے واپس پلٹ جاتے ہیں۔ہمارے گاوں میں بھی ایسی بے شمار نابغہ روزگار شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے سماجی بحالی اور بہتری کے لیے اپنے آپ کو وقف رکھا مگر اس خاموشی سے کہ اک ہاتھ سے دیں تو دوسرے کو خبر نہ ہو۔جیتے جی تو ہم انہیں کوئی خراج تحسین پیش نہیں کر سکتے مگر ان کے چلے جانے کے بعد ان کی اچھائیوں کا تذکرہ کر کے نئے آنے والوں کے لیے روشن راہوں کی طرف جانے پیغام دے سکتے ہیں۔

پچھلے ہفتے بھن سے ایسی ہی ایک ہشت پہلو ہستی چل بسی۔انہوں نے اس خاموشی سے سفر حیات طے کیا کہ میں اس خاموش دور سے لفظ ڈھونڈتی رہ گئی ،اگر محسوس کروں تو بہت کچھ ہے مگر لکھنا چاہوں تو اک پرسکون خاموشی ہے جیسے سمندر کا سکون۔میں بات کر رہی بھن والے حاجی گلفراز مرحوم کی۔کیا خوب صورت شخص تھا کیسی خوبصورت زندگی جی گیا۔

میں اسے اپنی خوش بختی کہوں یا پھر قدرت کا قیمتی تحفہ کہ اس نے تقسیم کے دوران میرے حصے میں ایسی ہستیوں کا ساتھ لکھا جن کے ذکر خیر سے بھی من مہکنے لگے۔حاجی صاحب نے اپنی جوانی کے ابتدائی سال کڑی محنت میں گزارے ،رب کا نام اور والدین کی دعا کل زادہ راہ لے کر سفر پہ نکلے ،توکل اور محنت کو شعار بنایا ،اپنے چھوٹے بھائی حاجی گل تاج صاحب کے ہمراہ دیس پردیس (گجرات ،لاہور ،لیبیا سویڈن) کی خاک چھاننی۔بھائیوں کا ایسا یارانہ بھی اک الگ کہانی ہے ۔رب نے بے پناہ نوازا۔جس دور میں دو وقت کی روٹی ملنا مشکل تھی آپ نے رزق حلال کمایا اور بے شمار کمایا۔مجال ہے دولت آنے پہ لہجے یا رویے میں کوئی تبدیلی آئی ہو۔وہی طبیعت کی عاجزی ،وہی ملنساری وہی جھکاو،چھوٹے بڑے سے محبت و شفقت سے ملنا۔اللہ کے دیے سے مخلوق خدا کی خدمت بے شمار کی۔بہت سے ضرورت مندوں کی ضروریات خاموشی سے پوری کرتے رہے۔گاوں میں جہاں سماجی خدمت کی بات آئی آپ نے اپنا حصہ ڈالا مگر بہت رازداری سے ۔نیکی کی تشہیر سے نیکی ضائع ہو جانے سے ڈرتے رہے۔محبتوں کو نبھانے میں صف اول پہ رہے تو نفرت مٹانے والوں میں بھی سرفہرست رہے۔

میرے جنڈالی (بھن ) کو رب تعالی نے اک سے اک باوصف ،باوقار شخص عطا کیا تِھا جس میں آپ کا شمار بھی ہوتا تھا۔میرے آبائی محلے کی پگڈنڈیاں وہ سبھی راہ رستے کیسے روشن لگتے تھے جب سفید لباس پہنے ،سفید داڑھیوں والے ،روشن چہروں والے ،ہاتھوں میں تسبیج لیے مسکراتے ہوئے گزرا کرتے تھے ۔تو بخدا رب اپنی ایسی باوقار تخلیق پر ناز کرتا ہو گا۔وہ کسی اک گھر کے بڑے نہیں ہوا کرتے تھے وہ سب کے سارے محلے کے بڑے ہوا کرتے تھے۔بچوں ،عورتوں کو شفقت سے دلاسے دیتے،نوجوانوں کو جوش سے گلے لگاتے ہمارے یہ مہذب بزرگ اک تہذیب کے آئینہ دار تھے۔حاجی گلفراز مرحوم بھی اک ایسا ہی روشن آئینہ تھے۔جس میں جب جب دیکھا محبت ہی محبت کے عکس نظر آئے۔موت برحق ہے ۔بہترین زندگی جی کر شاندار طریقے سے الوداع ہونے والے خوش قسمت ہوتے ہیں ۔حاجی گل فراز مرحوم بھی ایسے ہی خوش قسمت شخص ہیں۔رب تعالی کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ۔ان کی اولاد کو ان کے نقش قدم پر چلنے ،ان کی راویات کو نبھانے کی توفیق عطا کرے۔کیونکہ جب جب کوئی عظیم آدمی رخصت ہوتا ہے اس کے اہلخانہ اور اولاد کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری آ جاتی ہے کہ وہ اس کی نیک نیتی کا نہ صرف حصہ بنیں بلکہ اس کے لیے صدقہ جاریہ بھی بنیں۔امید و دعا ہے کہ رب انہیں کامیاب کرے ۔آمین

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More