top header add
kohsar adart

حکیم مولانا محمد ایوب صاحب مرحوم.اوسیاہ کی تاریخ کاقابل فخر باب

تحریر..حبیب عزیز

اوسیاہ گاوں کی تاریخ کا ایک قابل فخر باب۔

ماضی کے ایک نامور اور مشہور بزرگ

گورنمنٹ پرائمری سکول اوسیاہ کے اولین مدرس

جامع مسجد اوسیاہ کے خطیب و امام

اوسیاہ ڈاک خانہ کے اولین ذمہ دار

دکھی انسانیت کے مسیحا۔۔۔

حکیم مولانا محمد ایوب صاحب مرحوم۔

پچھلے دنوں میں حاجی حبیب صاحب مرحوم کی ایک ویڈیو شئیر کی تھی جس میں انہوں نے اپنے استاد محترم مولوی محمد ایوب صاحب مرحوم کا ذکر کیا تھا۔مولوی صاحب اوسیاہ گاوں کی تاریخ کا وہ انمٹ باب ہیں جں کے ذکر کے بغیر اوسیاہ گاوں کی تاریخ نامکمل ہے۔

خطہ کوہسار کی اولین مادر علمی گورنمنٹ پرائمری سکول اوسیاہ میں اس بزرگ ہستی نے علم کی وہ شمع روشن کی جس کے نور سے آج یونین کونسل دیول پورے خطہ کوہسار میں علم و فضل کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔چراغ سے چراغ سے جلتا ہے۔اوسیاہ دیول روات پھگواڑی نمب اور ملکوٹ ریالہ کے سینکڑوں بچے اس مادر علمی سے نکل کر اپنے اپنے علاقوں میں علم کی روشنی پھیلا گئے۔

وہ دور انتہا کی غربت کا دور تھا۔مولوی صاحب استاد ہونے کے ساتھ ساتھ مسیحا بھی تھے۔اللہ تعالی نے انکے ہاتھ میں شفاء رکھی تھی۔دور دراز علاقوں سے دکھ اور تکلیف میں مبتلا لوگ انکے پاس آتے تو مولوی صاحب دوا کے ساتھ انکے اصل مرض یعنی بھوک کا علاج بھی کرتے۔کھانا کھلاتے۔آٹا اور مکئی ہمراہ کردیتے کہ پیٹ کی آگ ختم ہوجائے تو مرض کا افاقہ ہوگا۔۔ان کے مریض انہیں دوا کے بدلے صرف دعا دینے کے قابل ہوا کرتے تھے۔۔یہ شاید انہی دعاوں کا فیضان ہے کہ آج مولوی صاحب کی اولاد اوسیاہ کی سب سے امیر اور بااثر لوگوں میں شمار ہوتی ہے۔۔

غریب دکھی انسانیت کی خدمت کا چشمہ فیض جس کی بنیاد مولوی صاحب نے رکھی تھی آج بھی جاری و ساری ہے۔
کبھی یہ چشمہ فیض ڈاکٹر محمود احمد کی شکل میں دکھائی دیتا ہے تو کبھی ڈاکٹر منیر احمد کی صورت میں پورے خطہ کوہسار میں دست شفا بن کر مشہور ہوتا ہے۔

اوسیاہ میں غریب دیہاڑی دار مزدوروں کو دو وقت مفت روٹی کا لنگر خانہ بھی اس چشمہ فیض کی ایک شکل ہے۔

اگر ایک طرف حکیم مشتاق احمد مرحوم نے کشمیری بازار مری میں مولوی صاحب کے ورثے کو خدمت کی شکل میں لوگوں تک پہنچایا تو دوسری طرف ماسٹر رشید احمد صاحب مرحوم ماسٹر مسعود صاحب اور ماسٹر حسین احمد محسن صاحب مرحوم نے مولوی صاحب کی علمی وراثت سنبھالے رکھی۔یہ سب ہمارے عظیم اساتذہ کرام تھے جن کی علم پروری کی وجہ سے گورنمنٹ ہائی سکول اوسیاہ پورے ضلع میں نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔

اوسیاہ کی جامع مسجد کی تعمیر نو کا معاملا سامنے آیا تو سب سے پہلے لبیک کہنے والے منصور احمد ملک تھے جو برسوں سے لندن میں مقیم ہیں اور وکالت کے معزز پیشے سے وابستہ ہیں

اگلی پیڑھی نے بھی اپنے آبا واجداد کی روایت برقرار رکھی۔
شبیر احمد ملک وکالت میں سپریم کورٹ تک جاپہنچے ۔اجمل خان لندن میں اپنے دادا کا چشمہ فیض جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اوسیاہ کو ماڈل ویلج کا سٹیٹس دلوانے والے جاوید احمد ملک پہلے وزیر اعظم کے سپیشل ایڈوائزر تھے اور اب پاکستان کے لئیے دنیا جہاں سے انوسٹمنٹ لانے والے سفیر ہیں۔

میرے یار موجو بھائی مجیب بھائی کا کیا کہنا۔۔انسانیت کی خدمت پر یقین رکھنے والا یہ بندہ لوگوں کی اس طرح مدد کرتا ہے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ایک بہت بڑے قومی ادارے کی ایگزیکٹو پوسٹ رکھنے والا موجو بھائی عام نظر میں درویش دکھتا ہے۔

میرا دوست میرا کلاس فیلو پروفیسر قیصر مسعود قطر میں اپنے دادا کی علمی میراث کا پرچم تھامے ہوئے ہے اور وہاں کا سب سے مشہور پاکستانی شاعر ہے ۔جس کی شاعری میں نے بہت بار قطر ریڈیو پر سنی اور فخر محسوس کیا کہ یہ میرا کلاس فیلو ہے۔


سعد مشتاق یونانی طب و حکمت میں پورے مری میں مشہور ہے۔

کس کس کا ذکر کروں۔۔گویا ستاروں کی ایک کہکشاں ہے جس کا ہر رکن اپنی جگہ مکمل داستان ہے۔۔

میں نے بچپن میں مولوی صاحب کو دیکھا تھا۔سفید براق نورانی داڑھی ۔شملے سے مزین زری کے کلا والی پگڑی اور اچکن پہنے ہوئے مولوی صاحب بہت خوبصورت تھے
انکے چہرے اور آنکھوں میں وہ سکون تھا جو ان سے ملنے والے ہر شخص کے دل پر اثر کرتا تھا۔نبض پر رکھا انکا نرم و گرم ہاتھ دوا سے پہلے اپنا اثر دکھا دیتا تھا۔
اس پوری فیملی کو دکھی انسانیت کی ان دعاوں نے رنگ دیا۔ایک ایسا رنگ جو کبھی پھیکا نہیں ہوتا۔

اللہ تعالی اس فیملی کے جملہ مرحومین کی کامل بخشش فرمائے اور باقیوں کی زندگی میں برکت ڈالے تاکہ یہ چشمہ فیض ہمیشہ جاری رہے۔آمین یارب العالمین۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More