بچپن ہی سے میرے اندر سرکشی، انا اور فرعونیت تھی۔جون ایلیا

سوال: شاعری میں استاد کس کو بنایا۔۔۔ گھریلو ماحول ادبی تھا لیکن اصلاح تو لی ہوگی؟
جواب: والد صاحب سے۔۔۔اصل میں میرے دوست تھے۔ایک تھے مولانا سید محمد عبادت کلیم امروہوی۔۔وہ امام جمعہ و جماعت تھے, وہ میرے استاد تھے .میں اکثر انہیں بھی دکھاتا تھا اور بعض کام بابا (والد صاحب) کو دکھاتا تھا۔میں نے عربی بھی اپنے استاد سے پڑھی تھی،فلسفہ بھی انہی سے سیکھا۔فلسفہ میرا جنون ہے۔۔۔۔مثلا” یہ کتاب جو میرے سامنے رکھی ہے یہ ہندو فلسفے کی سب سے مستند اور دنیا کی شہرہ آفاق کتاب ہے۔ اسے میں نے کم از کم پچاس مرتبہ پڑھا ہے اور پچاس دفعہ ہی اور پڑھوں گا۔۔۔۔یہ ہندوستان کے فلسفے کا جوہر ہے اور دنیا کی ممتاز ترین اور مشکل ترین کتاب ہے۔ میں اس کا ترجمہ کرنا چاہتا ہوں۔اس سے کچھ استفادہ کرنا چاہتا ہوں۔

4c410d1d 0b1f 4634 bc98 20873a14ff0d

سوال: آپ نے شاعری بھی کی نثر بھی لکھتے ہیں، فلسفہ بھی ،اپ خود ان تمام چیزوں میں کس چیز کو اپنی اصل شناخت سمجھتے ہیں؟
جواب: بات یہ ہے کہ شاعری تو فطری مسئلہ ہے، آدمی کوشش سے شاعر نہیں بنتا۔۔۔میرا رجحان فلسفے کی طرف ہے۔
شاعری تو یوں ہے کہ جیسے جسم میں خون کی گردش لازمی ہے۔۔۔دوران خون کا معاملہ۔۔یعنی نظام تنفس بس شاعری میرے لیے ایسی ہی فطری اور لازمی چیز ہے جیسے یہ چیزیں۔۔

سوال: جب آتش جوان تھا تو کیسی گزری؟
جواب: خاص نہیں بس لکھنے پڑھنے میں جوانی بسر ہوئی البتہ یہ خواہش تھی کہ مجھے چاہا جائے۔۔۔۔اس لیے شاعری وسیلہ بنی۔۔۔ میں اس وقت انتہائی ہنگامہ پسند اور ہر وقت اداس رہنے والا تھا۔

سوال: اداسی کی کوئی خاص وجہ بھی تھی؟

جواب: مجھے معلوم نہیں،مجھے یاد ہے کہ ہمارے محلے میں ایک صاحب رہتے تھے بہت سریلے تھے،میں اکثر ان سے کہتا تھا کہ کوئی غزل سنائیں۔۔۔بے حد اداس کر دینے والی۔۔۔کوئی غمگین غزل۔۔۔مجھے غمگین اور اداس کرنے والی شاعری بہت پسند تھی اس کے ساتھ ساتھ انتہائی ہنگامہ پسند بھی تھا،محلے کا کیا بلکہ شہر بھر کا سب سے زیادہ ہنگامہ پسند لڑکا تھا اس دور کے دوست بھی شاعر وغیرہ ہی تھے ان میں سے کسی کو بھی لوگ نہیں جانتے۔

سوال:شادی۔۔۔آپ نے محبت میں کی۔۔۔کب کا واقعہ ہے؟

14c2ce8b dcea 4867 bfff bd616a22d35b
جواب: ہاں۔۔۔70ء میں۔۔۔شادی کی تھی۔۔۔محبت کی تھی۔۔شدید ترین محبت۔؟زاہدہ حنا کے ساتھ سات  برس محبت کا سلسلہ چلا۔۔۔68ء میں وہ ہمارے پرچے کے ساتھ وابستہ ہو گئی تھیں ۔ایڈیٹر تھیں وہ انشاء کی۔۔۔پھر 70 میں شادی ہو گئی۔شکیل عادل زادہ اپ جانتے ہوں گے انہیں یہ ہمارے بھتیجے کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ ہمارے بھائی رئیس امروہوی کے سب سے عزیز دوست عادل عزیز کے لڑکے ہیں۔ان کا نام تھا محمد شکیل،میں نے رکھا شکیل عادل زادہ اس وقت وہ عالمی ڈائجسٹ میں تھے۔

0e992fb7 b920 4044 90ad ef038fa145d8
سوال: اس سے پہلے بھی کسی سے محبت وغیرہ کا سلسلہ رہا تھا یا نہیں۔۔۔؟
جواب: میرا مسئلہ بڑا عجیب ہے میں شروع سے انتہائی اداس رہتا تھا، اور ساتھ ساتھ یہ بھی تھا کہ کوئی نہ کوئی ہنگامہ کرتا رہتا تھا۔۔جنگ عظیم میں میرا دل بڑا کرتا تھا کہ جا کر لڑوں۔۔ اس وقت میرا بڑا جی لگتا تھا۔۔۔یعنی ہنگامہ ہونا چاہیے،اداس کیوں رہتا تھا یہ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا۔۔۔میں اپنے اندر سے ہی اداس تھا۔

سوال: اپ اپنے رویے اور تاؤ سے بہت زیادہ خود پسند اور انا پرست نظر نہیں آتے؟

جواب:ہاں۔۔۔ایسا ہے۔۔۔اصل میں جب میں دو برس کا تھا تو میں پورے امروہہ میں مشہور ہو چکا تھا۔۔۔اپ پوچھیں گے کہ وہ کیسے تو اس سلسلے میں تفصیل یہ ہے کہ ہمارے بابا نے روزنامچے میں لکھا ہے کہ جن صاحب نے مجھے بچپن میں پالا تھا۔۔۔سید غنی حسن۔۔۔اس زمانے میں ممتاز لوگ اپنے نام کے ساتھ رئیس ضرور لگاتے تھے مثلا سید محمد احمد رئیس رام پور۔۔۔سید محمد علی رئیس بدایوں۔۔۔اسی طرح ان کا نام تھا سید غنی حسن رئیس امروہہ،ان کے دو گھوڑے تھے ایک ہمدم ایک رستم،رستم بڑا سرکش گھوڑا تھا ہمدم سفید تھا اس پر سونے اور چاندی کے زیور لدے ہوئے تھے۔

سید غنی حسن کے پاس فورڈ گاڑی تھی،انہوں نے مجھے پالا تھا اور انہوں نے مجھے یقین دلایا تھا کہ میں دنیا کا سب سے زیادہ ذہین اور سب سے زیادہ طاقتور آدمی ہوں۔۔اور خوبصورت بھی ہوں۔ذہین ہونے کی بات تو یوں غلط ثابت ہوئی کہ میں بدترین طالب علم ثابت ہوا۔یعنی میں تب ذہین نہیں تھا استاد مجھے جو پڑھاتے تھے مجھے سمجھ نہیں آتا تھا میرا دماغ کہیں اور ہوتا تھا،وہ کچھ اور پڑھاتے تھے غور سے سنتا ہی نہیں تھا۔کبھی کبھی تو مجھے ترقی دے کر پاس کیا جاتا تھا۔نہ جانے وہ مجھے کیوں ذہین سمجھتے تھے البتہ خوبصورت بہت تھا۔ اپنے ذہین نہ ہونے کا انکشاف صرف مجھ پر ہوا۔۔۔کسی اور کو نہ ہوا۔۔۔

غیر متعلق چیزیں بہت پڑھتا تھا، حساب سے وحشت تھی

غیر متعلق چیزیں بہت پڑھتا تھا، حساب سے مجھے وحشت تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں یہ کیوں پڑھوں۔۔ضابطے۔۔۔بھائی میں کوئی بنیا تھوڑا ہی تھا جو حساب پڑھتا۔۔۔بھئی میرا حساب سے کیا تعلق تھا۔۔تیسرے یہ کہ میں سب سے زیادہ طاقتور ہوں،اس کا پول بھی کھل گیا،ایک مرتبہ میں زعم میں محلے کے ایک لڑکے سے بھڑ گیا۔۔۔وہ مجھ سے چار پانچ برس بڑا تھا اس نے مجھے یقین دلا دیا کہ میں طاقتور نہیں ہوں۔۔۔مجھ سے کچھ کہا جا رہا تھا۔۔۔اور صورت حال کچھ اور تھی ،بس پھر میں اداس رہنے لگا،شاید میری اداسی کی اصل وجہ یہی ہو کہ مجھے میرے بارے جو باور کرایا جاتا تھا،میں وہ نہیں تھا۔ جنہوں نے مجھے پالا ان کے پاس بہت دولت تھی،تہ خانے روپوں سے بھرے ہوئے تھے۔

شروع سے ہی میرے اندر سرکشی، انانیت، فرعونیت تھی

11

 

 

 

 

 

 

 

 

 

انہوں نے بچپن میں ہی میرے اندر فرعونیت پیدا کی مگر میرا انداز عوامی تھا،یعنی نسل پرستی۔۔۔مثلا” یہ کہ میری نسل سب سے برتر ہے۔۔۔یہ چیز میرے اندر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی, لہٰذا شروع سے ہی میرے اندر سرکشی، انانیت، فرعونیت تھی۔اگرچہ بہت بعد میں میں نے ان سب کی تردید کی۔۔۔ایک بات تھی کہ میں اپنی فرعونیت کے باوجود اندر سے بہت درد مند تھا فرعونیت تو مجھے سکھائی گئی تھی۔ ایک مرتبہ جاڑوں کے موسم میں جب میں اپنی فرعونیت کی انتہائی عروج پر تھا ،میں نے محلے کے ایک لڑکے کو تھپڑ مار دیا بعد میں اے مجھے احساس ہوا کہ میں نے غلطی کی۔ لہذا رات کو انتہائی پر ہول سناٹے میں اس سے معافی مانگنے چلا گیا،میرے اتالیق مجھے ہر وقت ساتھ لیے پھرتے تھے۔۔۔وہ مجھے جانی کہتے تھے۔۔لوگ ان کا مذاق اڑاتے تھے،ان پر طنز کرتےتھے،ہماری والدہ کا نام نرجس تھا،لوگ اس زمانے میں ہمارے اتالیق پر پھبتی کستے تھے کہ
شفیق و نرجس مزے اڑائیں
اور بچے پالیں غنی حسن
مجھے وحشت ہونے لگی تھی کہ میں ان کی گود میں بیٹھ کر جا رہا ہوں اور لوگ مجھے دیکھ کر ہنس رہے ہیں۔اس وقت میری عمر تین برس سے بھی زیادہ تھی میرا حافظہ بڑا تیز تھا اب بھی مجھے یاد ہے میرے دل میں گرہ پڑ گئی کہ لوگ مجھے دیکھ کر ہنستے ہیں۔ کیوں ہنستے ہیں۔۔کیا بات ہے؟ اس کے علاوہ کوئی بات نہیں تھی مگر میں مشہور بہت تھا ۔نہ تو میں نے شاعری میں کوئی تیر مارا نہ میں نے مشہور ہونے کی کوئی منصوبہ بندی کی۔بیس مشاعروں میں سے تین میں جاتا ہوں۔میں چھپتا بھی بہت کم ہوں۔کچھ کیے بغیر بھی لوگ مجھے جانتے تھے۔ کہ یعنی کہ میں گھر میں بیٹھا ہوں، لیٹا ہوں اور گھر سے باہر میرے بارے میں خبریں اڑ رہی ہیں،تو عجیب زندگی تھی،شاید میری وحشت اور اداسی کا یہ راز تھا کہ میں مختلف ہوں مگر نہیں تھا۔۔۔اداسی کی وجہ سے میں مختلف ہوتا چلا گیا۔شعر یادآ گیا۔
خود کو دنیا سے مختلف جانا
آگیا تھا مرے گمان میں کیا
میرے شوق بھی عجیب سے تھے،سب بچے کھیلتے تھے ،میں نہیں کھیلتا تھا،دیکھنا پسند کرتا تھا میں تماشائی تھا ،تماشہ گر نہیں تھا۔

سوال:ایسا کیوں تھا؟
جواب: میں اصل میں ہار جیت کی صورت حال سے بچنا چاہتا تھا۔میں اپنے آپ کو امتحان میں ڈالنے سے بچانا چاہتا تھا۔میں میری تربیت ہی یہ تھی کہ میں سب سے برتر حسین اور طاقتور۔۔۔وغیرہ وغیرہ ہوں۔اس زمانے میں دو طرح کے لوگ تھے،اب بھی ہیں۔پیشہ ور اور اشراف۔پیشہ ور وہ تھے دکاندار،رنگریز ۔۔۔۔موچی وغیرہ وغیرہ۔اور اشراف وہ تھے صدیقی۔۔۔زبیری ۔۔۔عباسی،فاروقی ،عثمانی، سید۔۔۔یہ سب اپنے آپ کو برتر سمجھتے تھے۔طبقہ برتر اور یہ چلن عام تھا۔جو صدیقی نہیں،یعنی عرب النسل نہیں ہے وہ غلام ہے،میں ان لوگوں کے درمیان بیٹھ کر خوش ہوتا تھا،پیشہ وروں کے بچوں کے درمیان۔۔۔۔

میں نے یہ دائرے توڑے۔۔۔اپنے دائرے میں نہیں رہا۔۔۔ہم مختلف دائروں میں بیٹھ کر بریلوی۔۔۔سنی۔۔۔وغیرہ وغیرہ،اور ان کو سمجھا۔۔۔میں انگریزی اسکول کا طالب علم تھا مگر میں نے اپنے طور پر دیوبندی مسلک کے ایک دارالعلوم میں تعلیم حاصل کی۔اس دار العلوم سے بڑے بڑے بزرگ پیدا ہوئے۔۔۔مولانا حفظ الرحمٰن ،مولانا عبدالرحمن میمن،مولانا محمد طاسین،مولانا مفتی محمود،یہ سب اسی دارالعلوم میں تھے،شہری طلبہ عربی نہیں پڑھتے تھے،عربی مدارس میں مضافات بنگال یا سرحد کے لوگ آتے تھے،وہی عربی پڑھتے تھے اور انہی طلبہ کی بنیاد پر یہ اسکول چلتے تھے،میرے بہت سے بریلوی مسلک کے لوگ جو ہمارے ساتھ خوب ہلہ گلہ کرتے تھے،وہ دیوبندی مسلک کے مدرسوں میں کبھی نہیں جاتے تھے،مجھے عربی فارسی کا بہت شوق تھا،میں چلا جاتا تھا،شہر کا واحد طالب علم تھا جو عربی دارالعلوم میں پڑھا۔۔۔ورنہ سارے مضافات کے ہوتے تھے اور رزق العلماء کہلاتے تھے۔ان پر ان کا گزارا تھا۔

32090c42 ab26 4d77 8310 7de6b2743368

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

مسلکوں سے میں نے بغاوت کی۔۔۔ تمام مسلکوں میں گھسا

اس کی مثال یوں سمجھ لو کہ کراچی میں جو اردو بولنے والے شرفہ ہیں ان کے بچے عربی کو زبان کی طرح کب پڑھتے ہیں ۔عام طور پر سرحد کے لوگ۔ بنگال کے لوگ ہی یہ پڑھتے ہیں۔۔۔میں نے کئی لوگوں کو پڑھایا،منطق پڑھائی۔۔۔یوں سمجھو کہ مسلکوں سے میں نے بغاوت کی۔۔۔میں تمام مسلکوں میں گھسا۔۔۔پھر میں ہندوؤں میں بھی بہت اندر تک گیا۔۔۔یہ کتاب جو آپ کے سامنے رکھی ہے۔۔۔یہ ہندوستانی فلسفے کی سب سے دقیع اور سب سے مشکل کتاب ہے ۔ شاید چند ہی لوگوں نے پڑھی ہو۔۔۔۔پھر مختلف جلسوں میں جانا،جمیعت علمائے ہند،مسلم لیگ۔۔۔کانگریس۔۔۔ہر جگہ گیا محض ہنگامہ پسندی اور وحشت کی وجہ سے۔۔زندگی کو سمجھنا چاہتا تھا۔۔۔اس لیے میں نے دائرے توڑے اور عوام میں رہا۔۔۔۔(جاری ہے)

Since childhood I had stubbornness,ego and pharaohism. John Elia,بچپن ہی سے میرے اندر سرکشی، انا اور فرعونیت تھی۔جون ایلیا

انٹرویو کا پہلا حصہ پڑھنے کیلئے لنک پر کلک کریں

بچپن میں پڑھائی سے وحشت ہوتی تھی،اداکاری کرتارہا۔جون ایلیا

ایک تبصرہ چھوڑ دو