اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیئرمین تحریک انصاف کےوکیل لطیف کھوسہ اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی آڈیو لیککے فرانزک کا حکم دے دیا ہے۔ عدالت نے کہاہے کہ تحقیقات کی جائیں کہ سب سے پہلے آڈیو کہاں سے جاری ہوئی۔ جسٹس بابر ستار نے کہا پیمرا بتائے لوگوں کی نجی گفتگو کیسے ٹی وی چینلز پر نشر ہو رہی ہے؟
دوران سماعت جسٹس بابرستار نے پوچھا آڈیو کون ریکارڈ کر رہا ہے؟ جس پر لطیف کھوسہ نے کہا سب کو پتہ ہے کون ریکارڈ کرتا ہے، جسٹس بابر ستار نے کہا مفروضے پر تو نہیں چل سکتے۔ لطیف کھوسہ نے کہا یہ میرا نہیں پورے ملک کے وکلا کا مسئلہ ہے، وکیل موکل سے آزادی سے بات نہ کر سکے تو نظام انصاف کیسے چلے گا؟
جسٹس بابر ستار نے پوچھا، کیا آڈیو سوشل میڈیا پر آئی ہے؟ جس پر لطیف کھوسہ نے کہا آڈیو تمام ٹی وی چینلز نے بھی نشر کی، جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا سب سے پہلے ٹوئٹر (ایکس) پر آئی یا کہیں اور؟ یہ معلوم ہو جائے ریلیز کہاں ہوئی ہے تو پتہ چل سکتا ہے ریکارڈ کس نے کی؟
لطیف کھوسہ نے کہا پیمرا ویسے تو کسی کا نام لینے پر بھی اسکرین بند کر دیتا ہے، مجھ سے کوئی بات نہیں کرتا کہ آپ کا فون ہی محفوظ نہیں۔ جسٹس بابر ستار نے درخواست کی کاپی ڈی جی آئی ایس آئی کو بھجوانےکا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی بھی رپورٹ دیں کہ آڈیو کس نے ریلیز کی۔
عدالت نے بشریٰ بی بی اور لطیف کھوسہ کی آڈیو لیک کے معاملے پر ایف آئی اے، پیمرا اور پی ٹی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا اور کیس کی مزید سماعت 11 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
Court order for audio forensics of Bushra Begum and Latif Khosa,بشریٰ بیگم اورلطیف کھوسہ کی آڈیو کے فرانزک کا عدالتی حکم