اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں!

مفتی اعظم پاکستان کی رحلت پر جمیل الرحمن عباسی کی دلگداز تحریر

c75c90ff cc5d 49b6 8a2d 8e48f248ef22 750x430 1صاحب مضمون

حضرت مولانا محمد رفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ دنیا سے کیا     اٹھے سمجھو پورے جہاں کی موت ہو گئی اور پوری دنیا   اندھیر ہو گئی۔ مشہور مقولہ مَوتُ العالِمِ مَوتُ العالَمِ ”ایک عالم کا مرنا پورے جہاں کی موت کے برابر ہے“ یونہی تو مشہور نہیں ہوا۔

عالم کی موت کا دکھ، صحیح طور پر تو علم والا ہی محسوس کر سکتا ہے۔ چناں چہ حضرت کعب الاحبار رحمہ اللہ علیہ عالِم کی موت کو یوں بیان کرتے ہیں:

نَجْمٌ طُمِسَ”ایک تارا تھا جو ڈوب گیا“ کَسْرٌ لَا یُجْبَرُ ”ایسا توڑ کہ جس کا جوڑ نہیں“ ثُلْمَۃٌ لَا تُسَدُّ ”ایسا نقصان جس کی تلافی نہیں“۔

سوچیے کہ ان اقوال کی کوئی حقیقت بھی ہے یا یہ محض مبالغے اور حساسیت ہی پر مبنی ہیں۔اسے سمجھنے کے لیے یہ سمجھیں کہ علم زندگی بھی ہے اور روشنی بھی۔ کلام الہی میں اس کے بے شمار اشارے ملتے ہیں (أَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَأَحْیَیْنَاہُ وَجَعَلْنَا لَہُ نُورًا یَمْشِی بِہِ فِی النَّاسِ)”ارے دیکھو وہ جو مردہ تھا ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کو نور دیا جسے لیے وہ لوگوں میں پھرتا ہے“۔ دیکھیں یہاں مردے کو زندہ کیا گیا تو اسے نور سے نوازا گیا اور وہ نورِ حیات اصل میں علم ہے۔ چناں چہ حدیث مبارکہ میں فتنوں سے محفوظ شخص کے بارے میں فرمایا گیا:

(مَنْ أَحْیَاہُ اللَّہُ بِالْعِلْمِ)(مسند احمد)

”جسے زندہ کیا اللہ نے علم کے ذریعے سے“

پس جب علم زندگی ہے تو عالِم جہان کو زندہ رکھنے کا  ذریعہ اور محی ہے تو جس نے بھی عالم کی موت کو کل جہان کی موت قرار دیا  تو اس نے ہرگز مبالغہ نہیں کیا۔ رہی دوسری بات کہ علم روشنی ہے تو حدیثِ مسند احمد میں علماء کو(النُّجُومُ فِی السَّمَاءِ) ”آسمان کے ستارے“ کہا گیا۔(وَبِالنَّجْمِ ہُمْ یَہْتَدُونَ) (النحل:16) ”انھی تاروں سے تو لوگ راستہ پاتے ہیں“ اسی روشنی کے بنیاد پر وہ لوگوں کے پیشوا بن کر ہدایت مزید کا ذریعہ بنتے ہیں۔ چناں چہ فرمایا گیا:

(وَجَعَلْنَاہُمْ أَءِمَّۃً یَہْدُونَ بِأَمْرِنَا) (الأنبیاء:73) ”اور ہم نے انھیں پیشوا بنایا وہ ہمارے حکم سے ہدایت دیتے ہیں،، پھرایک حدیث میں آتا ہے:
(إِنَّ مَثَلَ الْعُلَمَاءِ کَمَثَلِ النُّجُومِ فِی السَّمَاءِ، یُہْتَدَی بِہَا فِی ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ، فَإِذَا انْطَمَسَتِ النُّجُومُ أَوْشَکَ أَنْ یَضِلَّ الْہُدَاۃُ) (مسند احمد) ”بے شک علماء کی مثال ایسے ہے جیسے آسمان کے تارے جو خشکی و تری کے اندھیروں میں رشد و ہدایت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ پس پھر جب تارے ڈوب جائیں تو خدشہ ہے کہ راہ ڈھونڈنے والے بد راہ ہی ہو جائیں“
تو مرنے والے عالِم پر ایک عالَم     رو  رہا ہے۔ یہ اس بیماریوں سے ہارے بوڑھے مریض کا نوحہ نہیں ہے۔ یہ ایک باپ اور دادا کا ماتم بھی نہیں ہے بلکہ یہ اصل میں علم کا نوحہ ہے ۔یہ اس علم کا رونا ہے جو وہ ساتھ لے کر چلا گیا۔ بے شک حضرت ِ رفیع کی علمی روایت ان کے شاگردوں نے آپ سے لے کر محفوظ کر لی ہو گی۔ جو ان کے علم کے فروغ کا ذریعہ بنتے رہیں گے ۔لیکن بات صرف روایت کی نہیں ہے اصل مسئلہ تو اس فقاہت کا ہے جو آپ  کےساتھ چلی گئی۔ اس لیے کہ علم کے چمن میں فقاہت کی دیدہ وری بڑی مشکل سے پیدا ہوتی ہے۔
عالِم کے لفظ تو آپ نے لے لیے اس کے معنی کا کیا کریں گے۔ روایت تو آپ نے لے لی اس کی درایت کہاں سے لیں گے۔ اس کی کہاوت تو لے لی اس کی فقاہت کا کیا کریں وہ تو اس کے ساتھ ہی چلی گئی۔

رسول اللہ ﷺ نے دنیا سے پردہ فرمایا تو سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کا رونا تھا کہ تھمنے میں نہیں آتا تھا۔ چناں چہ انھوں نے تسلی دینے والوں کو یوں جواب دیا

(إِنِّی قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَیَمُوتُ، وَلَکِنْ إِنَّمَا أَبْکِی عَلَی الْوَحْیِ الَّذِی رُفِعَ عَنَّا) (مسند احمد)

”میں جانتی تھی کہ عنقریب آپ ﷺ انتقال فرما جائیں گے لیکن میں تو اس وحی پر روتی ہوں جو آپ ﷺ کے اٹھنے سے اٹھا لی گئی“۔

تو عالِم جب جہاں سے اٹھتا ہے تو اس کے ساتھ وحی کے متعلقہ علوم بھی اٹھ جاتے ہیں۔ انھی کا تو رونا ہے ورنہ امید ہے کہ مرنے والے کے لیے پچھلی زندگی اگلی سے عمدہ ہی ہو گی۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی موت پر ان کے شاگرد حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یوں تبصرہ کیا:

لَقَدْ ذَہَبَ الْیَوْمَ عِلْمٌ کَثِیرٌ(مجمع الزوائد) ”آج تو علم کثیر چلا گیا“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سانحہ ارتحال پر عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یوں اظہار خیال کیا:

(مَاتَ تِسْعَۃُ أَعْشَارِ الْعِلْمِ) ”یقینا نوے فیصد علم فوت ہوگیا“ (حلیۃ الاولیاء)
مولانا رفیع عثمانی کی موت کسی عام عالِم کی موت سے بھی کچھ بڑا سانحہ ہے کہ آپ علم حلال و حرام کے ماہر(مفتی) تھے۔  حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک قول ملتا ہے ۔فرماتے ہیں (لَمَوْتُ أَلْفِ عَابِدٍ قَاءِمٍ اللَّیْلَ صَاءِمٍ النَّہَارَ أَہْوَنُ مِنْ مَوْتِ الْعَاقِلِ الْبَصِیرِ بِحَلَالِ اللَّہِ وَحَرَامِہِ)(جامع بیان العلم لابن البر)

”رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے ہزار زاہدوں کی موت ایک حلال و حرام سے واقف عاقل و بصیر عالِم کی موت کے سامنے ہلکی مصیبت ہے،،
ہمارے نامے، اعمال کے لحاظ سے کورے ہی ہیں ہاں اگر ہمارے ڈیوے میں کچھ ہے تو جبہ پوشوں کی محبت و عقیدت ہی ہے۔ چناں چہ حضرت کی موت نے ہمارے جسم و جان کے تار جنجھلا دیے ہیں۔ ہمیں حضرت ایوب سختیانی کا قول بے اختیار یا د آتا ہے:

(إنی أُخبر بموت الرجل من أہل السنۃ وکأنی أفقد بعض أعضائی) (حلیہ الاولیاء) ”جب میں اہل سنت کے کسی عالم کے انتقال کی خبر سنتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے میرے تن بدن کا کو کوئی حصہ مجھ سے کھو گیا ہو“!!

لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں!

ایک تبصرہ چھوڑ دو