اندیشوں بھری دنیا اور بیٹیوں کا جہاں

شمائلہ عزیز ستی

چند روز قبل امی کے گھر سے سویرے سکول کے لیے نکلی۔جونہی گلی کے نکڑ سے مڑی ایک رشتہ دار چچا سے ملاقات ہو گئی۔جلدی میں حال احوال پوچھ کر نکلنے کی کی۔مگر وہ ساتھ ساتھ ہی چل پڑے۔سوال جواب کرتے رہے ،ہر دوسری بات یہ تھی۔
"بھائی بھابی (میرے والدین ) یا چھوٹے بھتجیے (چھوٹا بھائی ) سے کہتیں گاڑی میں بٹھا آئیں۔”
میں نے ہر بار کہا زیادہ دور نہیں میں خود آ جاتی ہوں۔
مگر وہ اپنی بات پر ڈٹے رہے۔سڑک تک آتے آتے یہی تاکید کرتے رہے کہ سسرال میں بھی سڑک تک اکیلی مت جایا کرو
شوہر کے ساتھ نہ ہوں تو ساس سسر کے ساتھ جانا،زمانہ ٹھیک نہیں ،لوگ اچھے نہیں ،بیٹیوں کا معاملہ ہے۔اس جیسی بہت سی باتیں کر کے مجھے قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔بلکہ ڈراتے رہے ۔
سٹاپ پہ آ کے گاڑی کے متعلق سو سوال کیے ،میں نے کہا آپ جائیں میری گاڑی دو تین منٹ تک آ جائے گی۔بضد کہ
” ایسے کیسے چلا جاؤں۔لڑکی ذات کا معاملہ ہے۔گاڑی والے کا نمبر دو وہ آیا کیوں نہیں ؟ میرے نمبر سے اسے فون کرو۔”
مجھے خاموش اور مطمئن دیکھ کر مزید سیخ پا ہو کر بولے۔
"میں نے اسی پریشانی کی وجہ سے دسویں کے بعد بیٹی کو نہیں پڑھایا ،کون چوکیداریاں کرے،ماں بیمار ،مجھے سو کام ۔۔۔اتنی تعلیم کافی ہے ۔۔۔کل بیگانے گھر کی ہو جائے گی اگلے سنبھال لیں گے ۔۔”
مجھے بہت کچھ کہنا تھا مگر چپ رہی کہ بے سود تھا۔اتنے میں چراہ والی بس نمودار ہوئی کہ وہ مجھے سٹاپ پہ اکیلا ہی چھوڑ کے اس کی جانب لپکے۔۔۔۔وہاں لٹک کے پھر یاد آئی
"بھتیجی اپنا خیال رکھنا ۔۔۔وقت اچھا نہیں۔”
یہ اور اس جیسے کئی رویے ہمیں دن میں کئی بار دیکھنے پڑتے ہیں۔اپنے اردگرد دیکھوں تو والدین اور بھائی اپنی بیٹیوں ،بہنوں کو گاڑیوں اور اداروں تک چھوڑنے آ رہے ہوتے ہیں وہیں سینکڑوں لڑکیاں اور خواتین اکیلی بھی آ جا رہی ہوتی ہیں۔لیکن اس سے دوگنی بیچاری ،سماجی روایات کی بھینٹ چڑھ کر گھر بیٹھی ہیں۔سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے واقعات کا خوف کہیے یا گلی ،محلے ،بازاروں میں ہونے والی بدتمیزیوں کا ڈر ،قصور بیٹی ،بہن کا ہے یا نہیں سزا اسی کو ملے گی۔بلکہ اکثر واقعات میں تو اگر لڑکی باہر ہوئی کسی بدتمیزی کا ذکر گھر میں کر دے تو بجائے اس برائی کا سدباب کرنے کے لڑکی کا گھر سے نکلنا بند۔۔۔وضاحت بس اتنی کہ "زمانہ خراب ہے .”
سوال تو یہ ہے یہ خرابی دور کون کرے گا ؟
اس کا سدباب کون کرے گا ؟

کیا اس کا حل عورت کے رستے میں دیواریں کھڑی کرنا ہے ؟
مجھے بہت عزیز ہیں وہ محتاط والدین جو قدم قدم ساتھ چل کر اپنی بیٹیوں کے خواب پورے کرتے ہیں۔دھوپ اور بارش میں چھتری بن کر ہمراہ ہوتے ہیں۔
ان سے بھی پیارے وہ والدین ہیں جو اپنی بیٹیوں کی کھری تربیت کر کے ان پہ مکمل بھروسہ کرتے ہیں۔اپنی دعاوں میں انہیں رخصت کرتے ہیں،اور واپس آنے پہ دروازوں پہ مسکراتے ہوئے خوش آمدید کہتے ہیں۔ان کے مسائل دوست بن کر سنتے ہیں
۔۔۔۔ان کی آنکھیں اور کان بن کر۔خاموشی سے حل کرتے ہیں یا تدبیر بتاتے ہیں۔ہر دیوار میں دروازہ بناتے ہیں کہ آسانی اور سہولت ملے۔
اچھے برے واقعات سماج بناتے ہیں۔دنیا کے ترقی یافتہ ،تہذیب یافتہ معاشروں میں میں ناہمواریاں ہیں۔مشرقی معاشرہ کیوں کہ روایات کا پابند و آمین رہا اب جبکہ بدلتے زمانے کی ہوا اور سوشل میڈیا کی وساطت سے وہ روایات مہندم ہو رہیں۔چلن بدل رہا تو یہ اچانک بدلاو بہت تکلیف دہ ہے۔حالانکہ ہر سماجی برائی پہلے سے موجود تھی مگر بہت شرافت اور پردہ داری سے روایات میں لپیٹ کر کی جاتی تھی۔اب دوسری دنیا کی دیکھا دیکھی سرعام تماشہ ہونے لگا ہے۔تو بجائے اس منفی تبدیلی اور خرابی کو درست کرنے یا بدلنے کے گناہ و ثواب کے سارے پیمانے عورت سے منسوب کرنا درست ہے۔؟
اس کا سرا سر اثر مڈل کلاس پر ہو رہا ہے۔اپر کلاس ان باتوں کی پروا نہیں کرتی ،جبکہ لوئر کلاس کو دو وقت کی روٹی سے غرص ہے۔سماجی روایات کے برقرار رہنے ،عزت ،بے عزتی کے معیارات اور کردار کے پیمانے کو متوازن رکھنے کا ٹھیکہ سفید پوش طبقے کے پاس ہے۔اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے اس طبقے کی دس میں سے پانچ عورتیں آج بھی اپنے خوابوں کی قربانی دیتی ہیں۔
حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ آج بھی اسی پاکستان میں مجھ جیسی لاکھوں خواتین تعلیم بھی مکمل کرتی ہیں اور ملازمت بھی کرتی ہیں۔لیکن وہ اس لیے مضبوط ہیں کہ ان کے پیچھے والدین کی تربیت ،دعائیں ،بھائیوں کا ساتھ اور شوہر کا سہارا ہوتا ہے۔۔اس لیے وہ سماج کی ساری جنگیں لڑتی ہیں ، جیتتی ہیں اور اپنا سفر جاری رکھتی ہیں۔
روشنی کے قافلے کا حصہ بنیں ۔۔اندھیرے کو مٹانے کے لیے ذرا سی روشنی کافی ہوتی ہے۔آندھیوں کے خوف سے چراغ مت بجھائیں ۔۔۔۔۔بہت سے چراغ رات بھر آندھی سے لڑ کر سحر ہونے تک جلتے رہتے ہیں۔ہاں چراغ جلانے والے کو بھی رتجگا کاٹنا پڑتا ہے۔
محبت فاتح عالم

رانی کی نکی نکی باتیں

 

ایک تبصرہ چھوڑ دو