آج مرشد اقبال مولانا جلال الدین رومی کا یوم وصال ہے
تحریر: راشد عباسی

شاہ شمس تبریز کے مرید مولانا جلال الدین رومی افغانستان کے شہر بلخ میں پیدا ہوئے۔ آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے تھے۔ حیات مبارکہ سفر میں گزری۔ آخری عمر میں ترکی کے شہر قونیہ آمد ہوئی۔ وہیں قیام پذیر رہے اور وہیں پر وصال ہوا۔
اقبال کو آپ سے والہانہ عشق تھا۔ ان کی مثنویاں "اسرار خودی” اور "رموز بے خودی” پر شہرہ آفاق مثنوی مولانا روم کے اثرات نمایاں ہیں۔ مثنوی مولانا روم میں چھبیس ہزار سے زاید اشعار ہیں۔ اور وہ چھ جلدوں میں ہے۔ علامہ اقبال خود اعتراف کرتے ہیں۔۔۔۔
پیر رومی خاک را اکسیر کرد
از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد
اقبال
مولانا روم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
خدایا رحم کُن بر من، پریشاں وار می گردم
خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم
خدا وند پاک مجھ پہ رحم فرما۔ میں پریشان حال پھرتا ہوں۔ میں خطا کا پتلا اور گنہگار ہوں اور اس گردش میں اپنی حالت زار کی وجہ سے ہوں۔
وجودِ آدمی از عشق می رَسَد بہ کمال
گر ایں کمال نَداری، کمال نقصان است
آدمی کا وجود عشق کے دم سے ہی ترفع اور عروج تک پہنچتا ہے۔ اے مخاطب اگر تیرے پاس یہ کمال نہیں تو تو بے حد نقصان میں ہے ہے۔
ہر کہ اُو بیدار تر، پُر درد تر
ہر کہ اُو آگاہ تر، رُخ زرد تر
وہ جو بیدار تر ہے اس کے کرب کی شدت بھی زیادہ ہے۔ اور وہ جو زیادہ آگہی رکھتا ہے اس کا چہرہ بے طرح زرد ہے۔
بیا جاناں عنایت کُن تو مولانائے رُومی را
غلامِ شمس تبریزم، قلندر وار می گردم
اے میرے محبوب تو تشریف لا اور مولانا روم پر نظر کرم کر۔ میں شمس تبریز کا مرید ہوں اور قلندرانہ جذب و شوق کے ساتھ گھوم رہا ہوں۔
شاد باش اے عشقِ خوش سودائے ما
اے طبیبِ جملہ علّت ہائے ما
اے دوائے نخوت و ناموسِ ما
اے تو افلاطون و جالینوسِ ما
اے عشق! ہمارے بیکراں اور مستحسن جنون کے سبب تو خوش رہ۔ تو ہی ہماری تمام بیماریوں کا مسیحا ہے۔
تو ہی ہمارا غرور اور ہماری عزت ہے۔ تو ہی ہمارا افلاطون اور جالینوس ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یک زمانہ صحبت با اولیا
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
کسی ولی اللہ کے حضور گزرے کچھ لمحے
سو سال کی پر خلوص عبادت سے بہتر ہیں
چیست دنیا؟ از خدا غافل بدن
نے قماش و نقرہ و فرزندان و زن
دنیا کیا ہے؟ رب ذوالجلال سے غافل ہو جانا
دنیا مال و متاع، چاندی ، بچے اور بیوی نہیں